ذمہ داران
تحریر: کریم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زمہ دار کے لغوی معنی ہیں کسی کام کا بیڑا اٹھانے والا،کسی دوسرے کو اپنے ذمے لینے والا ، ضامن یا کفیل ، قابل اعتبار ، معتبر ،فرض شناس، انتظام کرنے والا۔ مندرجہ بالا بیاں کی گئی زمہ دار کی اگر معنوں کو دیکھا جائے تو ہر معنی کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ اگر باریکی سے ان کی تعریف بیان کی جائے تو ہر معنی پر کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں۔
انسان اپنے وجود سے لیکر آج تک شب و روز ہمیشہ سے کوشاں ہے کہ کیسے اپنی حیات کو آسان سے آسان بناۓ اور اپنے لیئے زیادہ سے زیادہ سہولتیں پیدا کرے۔ اسی انسانی فطرت کے سبب دنیا میں سماج ، زبان،ملک ، قوم ، سرحد ، ادارے وغیرہ وغیرہ تشکیل دئیے گئے تاکہ مزید آسودگی پیدا کی جاسکے اور آگے بڑھا جاسکے ۔ مشترکہ مقاصد و ضرورتوں کو مدنظر رکھ کرادارہ و زمہ دار جیسے اہم دریافت انسانی ذہن میں آئیں اور انہی دریافتوں نے انسانی سماج کی ترقی و منزل حاصل کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔
جب بلوچ بھی اسی انسانی سماج کا ایک حصہ ہے تو ہمارے لیے بھی وہی دستور لاگو ہوتا ہے یعنی کہ ادارے و زمہ دار کے بغیر کامیابی و منزل کا حصول ناممکن ہے ۔ یہی ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کی حجوم کو قوائد و ضوابط ،آئین و قانون کے زریعے ایک دائرے میں پابند کر دیتا ہے اور لوگوں کی بکھری ہوئی طاقت کو یکجا و منظم کر کے طے کی گئ منزل کی جانب محو سفر کرواتا ہے ۔ ادارہ جو کہ ظاہر ہے کسی خلائی مخلوق پر نہیں بلکہ ہم ہی پر مشتمل ہوتا ہے اسی لئیے ادارے کو فعال رکھنے میں سب سے اہم کردار ہمارا اپنا ہے ۔ اداروں کو منظم انداز میں چلانے کے لیے کچھ زمہ داروں کا تعین کیا جاتا ہے۔
دستوری طور پر اُن لوگوں کو زمہ داری کے لیے چناؤ کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جو کہ باقی حجوم سے باصلاحیت اور سب سے زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں ۔موجوہ جدید دنیا میں ہر ادارے کا چناؤ کا اپنا ایک قانونی، جمہوری و سائینسی واضح طریقہ کار ہوتا ہے جس کے عین مطابق زمہ داراں کو منتخب کیا جاتا ہے۔
چونکہ ادارے سے منسلک لوگ منتخب زمہ داراں کے ماتحت ہوتے ہیں اور اُن ہی کے ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں اسی لیے کسی بھی ادارے کی کامیابی یا ناکامی میں سب سے اہم کردار ذمہ داراں کو ٹہرایا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
ایک سوال بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہمارے زمہ دار تحریر کی آغاز میں بیاں کی گئی ٫ (زمہ دار )،کی تعریف پر کسی نہ کسی حد تک پورا اترتے ہیں ؟ بلکہ سب سے پہلے تو یہ سوال زہن میں آتا ہے کہ واقعی قابلیت کی بنیاد پر ہی زمہ داراں کی تعین کیا جاتا ہے ؟ اگر ہاں تو وہ کونسے طریقہ کار ہیں، جس کے تحت ان کو منتخب کیا جاتا؟ کیونکہ ماسوائے ایک ،دو اداروں کے جن کا طریقہ کار واضح ہے جس سے ہم میں سے بیشتر دوست واقف ہیں یا کتاب کی شکل میں ہمارے نظروں سے گزرا ہوگا ۔ اب دو باتیں زہن میں آتے ہیں یا تو باقی اداروں کے زمہ داراں کا چناؤ روایتی قبائلی طریقہ کار یقنی کےبڑے یا بزرگ (عقل و پہم سے نہیں بلکہ صرف سفید داڑھیوں کے)جس کو چاہیں زمہ داری کی پگڑی پہنا دیں کوئی واضح طریقہ کار موجود ہی نہیں اگر موجود ہے تو شاید انجیر کی پھول کی طرح کسی جنتی کو ہی اُس طریقہ کار کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔
کسی بھی ادارے کے لیے ایک واضح ، قانونی ، جمہوری یا فوجی طریقہ کار انتہائی اہم ہے کیونکہ انہی طریقوں پر عمل کر کے ہی قابل و باصلاحیت لوگوں کا چناؤ ممکن ہوتا ہے اور اگر زمہ دار ہی قابل نہ ہوں لکیر کے فقیر ہوں تو وہ ادارہ ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوتا ہے اُس ادارے سے جڑے لوگ مایوسی ، پریشانی اور مقصد پر نظر رکھنے کے بجائے اندرونی مسائل سے ہی باہر نہیں نکل پاتے جس کا انجام نقصان و ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
اب زمہ داراں کو ,ما سوائے چند کے،(زمہ دار) کی بیان کی گئی تعریف کی ترازو میں تولا جائے تو ایک سنگ میں لوہا اور دوسرے سنگ میں کپاس کے برابر کا نتیجہ سامنے آتا ہے کیونکہ زمہ دار کی سائنسی تعریف اور زمہ داراں کے اعمال میں زمیں و آسمان کا فرق نظر آتا ہے جو کہ ایک قابلِ تشویش خطرہ ہے ۔
بلوچ چونکہ اس وقت حالتِ جنگ میں ہے ، پیر و ورنا عورت و بچے سب اپنی اپنی انمول جانوں سمیت ہر قیمتی شے کو بہ خوشی وطن پر قربان کر رہے ہیں ، عام و خاص سب اس جنگ سے متاثر ہیں ، ریاستی مظالم آسمان کو چھو رہی ہیں ایسی صورت میں زمہ داراں پر خاص زمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ اُن کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ ہر فرد اُنہی کی ماتحت ہے اور وہ جیسے حوصلہ افزائی کریں گے ادارے سے منسلک لوگوں کے مسائل حل کریں گے ، ہر قدم پر راہنمائی کریں گے تو لوگ مضبوط سے مظبوط ہوکر مزید توانائی سے مزاحمت کریں گے لیکن اگر وہ ساتھیوں کو حوصلہ افزائی کے بجائے نظرانداز کریں گے ، دوستوں سے رابطہ کاری ختم کریں گے ،جب کوئی ساتھی رابطے کی کوشش کرے تو جھوٹ بول کر یہ بتایا جائے گا واجہ سفر میں ہے ، جب کسی بحث کا جواب یہ دیا جائے کہ آپ مایوس ہیں ،جب کسی سوال کو پروپیگنڈہ کی ٹوکری میں ڈالا جاۓ ،جب ساتھیوں کے بجائے خاندانوں پر توجہ دی جاۓ ، قومی وسائل کو ذات پر ضائع کیا جائے ، ساتھیوں کو حالتِ جنگ کا چورن بیچ کر وسائل کی کمی کا بہانہ تراشا جائے اور خود شاہانہ زندگی گزارا جائے، اہم چیزوں پر سوچنے کے بجائے جواز تراشا جائے تو ان تمام چیزوں کا نتیجہ ناکامی و زلت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
انقلابی زمہ دار تو ضامن ہوتا ہے ، کفیل ہوتا ہے ، ہر شے کے لئیے فکر مند رہتا ہے ، معتبر ہوتا ہے ، فرض شناس ہوتا ہے ہمیشہ دوستوں کے ساتھ رہتا ہے اور دوستوں کی سلامتی کے لیے فکر مند ہوکر حال احوال کے لیے ترستا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا دیکھنے کو بھی ملتا ہے جہاں دو دو اداروں سے منسلک لوگوں کے وٹسپ لاسٹ سین و بلیو ٹِک اسی ڈر سے بند رہتے ہیں کہ کوئی رابطہ کرے تو یہ تاثر جاۓ کہ وہ نیٹورک میں نہیں ، یا پیغام کرو تو بعد میں کال کرکے بھی بتادو صاحب آپکو پیغام بھیجا ہے براۓ کرم تکلیف فرما کر چیک کریں ۔سونے اور جاگنے کی وقت سے بے خبر خوابِ خرگوش میں پڑے رہتے ہیں ،
وسائل کو کب کہاں استعمال کرنا ہے ،کن دوستوں پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہے ،اس طرح کی تمام زمہ داریوں سے بری الزمہ زمہ دار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جب سوال کیا جائے تو جواب میں بے بسی ، کم وسائلی ،شوگر ، بی پی ،ڑپریشن ، وغیرہ وغیرہ کی لسٹ نکال کر گلے شکوہ پر اتر آتے ہیں۔
ایسے زامہ داران کے لئیے ارتضیٰ نشاط نے کیا خوب فرمایا ہے
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
موجودہ صورتحال میں جہاں جنگ عروج پر ہے شاری جیسے ماں اپنی نومولود بچوں کو چھوڑ کر سینے پر بارود سجا کر قربان ہورہی ہیں ، ریاستی ظلم و جبر عروج پر ہے اور بلوچ کے لیے بھی مرنے یا مارنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں بچا ہے تو ایسی صورتحال میں سستی یا بہانہ بازی سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا بلکہ بلوچ جنگ کو مزید تیز سے تیز کرنے کے لیے ایماندار ،مخلص و بہادر وباصلاحیت لوگوں کی ضرورت ہے جو ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی اگر ہم باصلاحیت نوجوانوں کے بجائے چلے ہوئے کارتوسوں کے ساتھ نشانہ بازی کرتے رہیں گے تو نشانہ سے دور ہی بھٹکتے رہیں گے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں