جینے کے ہنر ساز
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خیال کیا جاتا ہے کہ ہیضے کی وبا سے سالانہ پچانوے ہزار بھوکے،پیاسے لوگ دنیا کو خیرباد کرتے ہوئے لمبی سفر پر جاتے ہیں اور اُن میں سے بیشتر افریقی ہوتے ہیں۔ کسی پرچی پر لکھا پایا کہ افریقہ میں ہیضے کی مرض سے مرنے والے،محمد اور پاسکل کی تعداد دو ملین سے اوپر ہے اور یہ کہ افریقہ میں لاکھوں لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر کسی کچہڑی کے بائیں جانب زندگی کو ختم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
لکھنے کی پیشہ ور، باصلاحیت شخصیات افریقہ کو تین سو ساٹھ اینگلز میں دیکھنے اور پرکھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ افریقہ قدرتی معدنیات سے امیر لیکن گوڈ گورننس میں غریب ہے۔
ہندوستان بہار میں مخصوص لہجے کا راجیندرا پرساد افریقہ اور بلوچستان میں تفریق کرتے کرتے اس نہج پر پہنچے کہ بلوچستان افریقہ سے کم نہیں ہے۔
آخر بلوچستان اور افریقہ میں کیا ہے جو دنیا میں نہیں ہے اور دنیا میں کیا ہے جو بلوچستان اور افریقہ میں ناپید ہے؟ سی پیک کی اشد ضروری تعریفیں سنتے سنتے جب چودھری رضوان گوادر کے فاضل چوک پہنچنے پر گٹر کی پُر میزبانی استقبال کا موہ لیتے لیتے جب شاہی بازار پہنچے تو گوادر کو خیالی دنیا بتاتے ہوئے،اپنے آپ کو نیند کی آغوش میں پاتے پاتے جب واپس گئے تو نیوز پر ہیڈ لائن دیکھنے کو ملی کہ گوادر میں ماہی گیر ٹرالر مافیا سے تنگ ہیں تو باقی ماندہ عوام پانی سے ترس رہے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر ذلالت کی بحث اور۔
اب جب سونے کی عالمی منڈی کا غریب مالک دلوش بلوچ کی چاغی میں سیندک اور ریکوڈک کی کوریج کے لیے آنے والے صحافی دلوش کو چار منزلہ بنگلے کے بجائے مٹی کے گھر،لینڈ کروزر کے بجائے ایرانی ارشیا نامی موٹر سائیکل،کھانے میں مٹن کڑاہی کے بجائے دہی اور کجھور کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ دلوش کے بچوں کو دو ماسٹر وں کی مڈل اسکول،علیل بیوی کو ڈی ایچ کیو کے بجائے بی ایچ یو میں دو دوائیوں کے ساتھ علاج کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو گہری سوچ کی سفر پر چل پڑتے ہیں۔
1952 میں دریافت کی گئی گیس پاکستان سے آزاد کشمیر تک پائپ لائن کے ذریعے سوئی سے لے جاتے ہیں اور سوئی کے گھروں کو ہمسایہ ملک کے حصہ میں ڈالتے ہوئے صرف پائپ لائن کی نقشے دلاتے ہیں اور پائپ لائن کی گیس کی بُو تک کو سونگھنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ بھلے ہی گیس سوئی کا ہو،کریم بخش بگٹی کا ہو۔
سوئی کے عوامی مفاد کو جس ٹھیکدار نمائندہ کے ماتحت کیا جاتا ہے اُس کی گاڑی مرسڈیز ہے،گھر ڈی ایچ اے کراچی میں ہے،سرکاری گھر اسلام آباد ریڈزون میں اور نوکری وفاقی وزیر کا۔
بھلے کیوں نہ وہ بلوچ ہو،بگٹی ہو،سوئی کا رہائشی ہو۔ اُس کی مفادات کے آگے نہ سوئی ہے نہ بلوچ ہے اور نہ بگٹی۔
وہ بھی دماغ رگڑ کے چُنتے ہیں کہ کوئی ایسا تابعدار جس کے آگے ہم ہوں اور بس۔۔۔ دماغ تہس نہس کرکے کیا وہ یہ ٹوٹل نہیں لگاتے کہ ہماری مفادات کا سنگ ایسی برخوردار کے ہاتھ جس کے سامنے اپنی اور قومی شناخت ریت پڑ جائے۔ضمیر اور اصول خاک میں مل جائیں۔
اگر یہ سب پڑھ کر بھی کوئی اسلام آباد کی ریڈزون میں موجود لائی گئی نمائندے کو یاد کرے تو اُسے کہا جائے تاریخ کو سیکھنے کے لیے آپ کو مزید پانچ ہزار سال درکار ہیں۔
سوئی میں ہیضے کا مرض، پانی کی قلت کا احساس جسم میں دل اور دماغ رکھنے والے ہر انسان کو ہے۔ البتہ جو دل و دماغ سے خالی ہیں ان سے گِلہ نہ کیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں