بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بی این ایم کی آن لائن ہنگامی پریس کانفرنس

650

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بی این ایم کی آن لائن ہنگامی پریس کانفرنس

کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر خودکش حملے کے بعد پاکستانی فوج کے ہاتھوں جہاں بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو اہے وہیں بلوچستان و پاکستان بھر میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کی جنگی جرائم نے بلوچ سماج کو ایک انسانی المیے سے دوچار کردیا ہے۔

بلوچ خواتین کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے مرکزی اطلاعات اور ثقافتی سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ پر آن لائن ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں کسی خاص واقعے کا ردعمل نہیں اور نہ ہی صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کا تعلق کسی مسلح مزاحمتی تنظیم سے ہے، جیسا کہ پاکستان کے نام نہاد سیکورٹی ادارے میڈیا اور دنیا کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی نورجان نامی خاتون کو ھوشاپ سے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے اس پر بھی یہ جھوٹا الزام لگایا گیا ہے کہ ان کا تعلق ایک مسلح تنظیم سے ہے اور وہ خودکش بمبار ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ گرفتار کی گئی چودہ سالہ لڑکی شازیہ بنت اللہ داد کو جبری گمشدہ کیا اور اس کے بارے میں یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ انھیں جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک واضح جھوٹ اور گمراہ کن بیانیہ ہے۔ شاری کے فدائی حملے کے بعد یہ خدشہ موجود تھا کہ اب پاکستانی فورسز علی الاعلان بلوچ خواتین کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کریں گی اور کراچی میں کیے گئے فدائی حملے کو بطور جواز پیش کیا جائے گا۔یہ خدشہ درست ثابت ہوا آج بلوچستان اور بلوچستان سے باہر پاکستان کے دیگر بندوبست جیسا کہ سندھ اور پنجاب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ اکثر جبری گمشدگان کے بارے میں نہ سرکاری سطح پر کوئی وجہ بتائی جا رہی ہے اور نہ ہی ان گرفتاریوں کو قبول کیا جا رہا ہے۔

سیکر ٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے محض دعوے نہیں ہیں بلکہ کچھ پاکستانی زندہ ضمیر صحافی بھی اس پر دبے الفاظ میں سوشل میڈیا میں آواز اٹھا رہے ہیں۔یہ آواز پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا میں اس لیے سنائی نہیں دی رہی کہ کیونکہ وہاں کارپوریٹ میڈیا کے اپنے تقاضے ہیں، میڈیا مالکان کے مفادات بھی ہیں اور پاکستان کے طاقتور اسٹبلشمنٹ کا خوف بھی انھیں سچ شائع کرنے سے روک رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک پاکستانی صحافی کے مطابق کراچی میں شاری کے فدائی حملے کے بعد درجنوں بلوچ جبری لاپتہ کیے گئے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں لیکن ان کے خاندان کو دباؤ میں لاکر اس خبر کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

قاضی داد محمد ریحان نے کہا کہ میں آج اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعے آپ سے مخاطب ہوں کیونکہ یہ ذریعے جہاں آپ کو سچ بولنے کی زیادہ آزادی دیتا ہے وہاں مظلوم و محکوم اقوام کے لیے بھی یہ واحد فلیٹ فارم ہے جسے ہم بروقت استعمال کرتے ہوئے اپنے بارے میں وہ سچائی بتا سکتے ہیں جسے ریاست پاکستان نے میڈیا بلیک آؤٹ کے اندھیرے میں چھپا رکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آپ کو بھی یقین ہے کہ یہی سچ ہے، اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے منصب کا لاج رکھتے ہوئے اسے اجاگر کریں، یہ سیاسی معاملہ نہیں بلکہ انسانی معاملہ ہے۔جبری گمشدگیاں انسانی شرف اور وقار پر حملہ ہیں اس کے خلاف ہماری مدد کریں تاکہ انسانیت پر ہمارا یقین قائم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ ہی شہید غلام محمد بلوچ، شہید شیر محمد بلوچ اور شہید لالا منیر بلوچ مسلح جدوجہد کر رہے تھے کہ جنھیں 3 اپریل 2009 کو دن کی روشنی میں ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کی عدالت کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا جب عدالت نے ان کو جھوٹے الزامات سے باعزت بری کردیا تھا۔ شہید غلام محمد بلوچ، بی این ایم کے چیئرمین تھے اور شہید شیر محمد بلوچ ایک دوسرے پر امن سیاسی جماعت بی آر پی کے نائب صدر تھے جبکہ شہید لالا منیر بلوچ بی این ایم کے مرکزی سینٹرل کمیٹی کے ممبر تھے۔ان میں سے کسی کے خلاف ریاست آج تک یہ ثبوت پیش نہیں کرسکی یہ مسلح جدوجہد میں ملوث رہے تھے۔

سیکرٹری اطلاعات نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تب سے روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں اور مسخ لاشیں ملنے کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہے جو کہ جیمڑی بلوچستان سے لے کر لاہور پنجاب اور شال سے لے کر سانگھڑ سندھ تک پھیلا ہوا ہے بلوچ پاکستانی ریاست میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ ان کی زندگیاں، نہ مال اور نہ ہی عزت محفوظ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپریل 2022 کو ضلع پنجگور کے قصبہ گچک کے گاؤں کرک ء ڈل سے دو خواتین شھزادی اور شاہ بی بی اور ایک چھ دن کی چھوٹی بچی کو ایف سی نے حراست میں لیا اور انھیں اپنی حراست میں جبری گمشدہ کر دیا۔ ایک حاملہ خاتون اور ایک چھ دن کی بچی بھی خودکش بمبار ہوسکتی ہیں؟، یہ آپ سوچیں۔یہ مذکورہ خواتین اور بچی آج بھی جبری گمشدہ ہیں۔ایف سی مسلسل اس خاندان کو دھمکی دی رہی ہے کہ وہ مزید لوگوں کو جبری لاپتہ کر دے گی۔

قاضی داد محمد ریحان نے کہا کہ ضلع کیچ کے قصبہ کولواہ کے گاؤں ڈل بازار میں ایف سی صوبیدار جس کا نام یارمحمد ہے اور یارو کے نام سے معروف ہے اس کے ماتحت اہلکاروں نے ایک گھر میں گھس کر خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی جسے مقامی لوگوں نے بروقت ناکام بنادیا، آپ معلوم کریں کہ اجتماعی جنسی زیادتی خودکش بمبار یا کسی بھی جرم کی کون سے آئین و قانون کے تحت سزا ہے جو بلوچ خواتین اور بچوں کو دی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ رات نام نہاد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ھوشاپ ضلع کیچ میں ایک گھر پر چھاپہ مارا اور ’نورجان بنت خدابخش زوجہ فضل‘ اور شازیہ بنت اللہ داد کو حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا اور اب نورجان پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک خودکش بمبار ہیں جو کہ سی پیک روڈ پر سفر کرنے والے چینیوں کے قافلے کو نشانہ بنانا چا رہی تھی۔

سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ آئیں دیکھیں کیا اس روڈ پر چینیوں کی آمد و رفت باقاعدگی سے ہے کہ ان پر اس طرح حملہ کرنا ممکن ہوسکے۔کیا کسی مرکزی شاہراہ پر کھڑے ہوکر کسی کو فدائی حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے؟

انھوں نے کہا کہ آپ جب سوچیں گے تو آپ خود حقیقت تک پہنچیں گے کہ یہ سب بلوچ قوم کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہیں۔ یہ کارروائیاں بلوچ قومی تحریک کے سرگرم کارکنان کے اہل خانہ کے خلاف ہو رہی ہیں انھیں دباؤ میں لانے اور تحریک سے دست بردار کرنے کے لیے ان کے والدین، بھائی، بہن، بیوی اور بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

قاضی داد محمد ریحان نے کہا کہ نورجان ایک گھریلو خاتون ہیں ان کے شوہر فضل مزدوری کرتے ہیں۔ مزدوری سے گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہے اس لیے نورجان بھی کشیدہ کاری کا کام کرتی ہیں تاکہ اپنے تین بچوں اور گھر کے دیگر افراد کی مالی مدد کرسکیں۔ نورجان اپنے والدین سے ملنے کچھ دن پہلے کولواہ گئی تھیں اور جب وہ واپس آئیں تو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر انھیں گرفتار کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں خواتین کے وقار کی بڑی اہمیت ہے، ہم اس پر خاموش رہیں گے اور نہ ہی یہ قابل برداشت ہے۔بلوچ ہر سطح پر اس کے خلاف بات کریں گے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے، پاکستان کو مالی مدد پہنچانے والے ممالک اور بالخصوص بلوچستان کے ہمسایہ اور خلیجی ممالک اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کی رہائی میں اپنا فوری کردار ادا کریں۔