مائیں مسکین ہوتی ہیں ۔ محمد خان داؤد

350

مائیں مسکین ہو تی ہیں

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اوشو نے کہا تھا کہ
،،زندگی ایک نغمہ ہے ایک رقص ہے،،
پر کب جب انسان خوش ہو،راحت سے ہو دلبری سے ہو
پر اوشو نے یہ بھی کہا تھا کہ
،،زندگی ایک عذاب ہے زندگی ایک دردِ مسلسل ہے،،
پر کب جب انسان اذیت میں ہو،دکھ میں ہو تکلیف میں ہو
اور ایسی تکلیف میں جس تکلیف کے لیے بابافرید نے فرمایا تھا کہ
،،کملی کر کہ چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تا رولاں!،،
جس کے لیے لطیف نے یہ درد بھری آہ بھری تھی کہ
،،اُتر لگو،سر نسریا
تو کان مون سؤ سؤ سکھاؤں کیون!،،
پر جب درد سوا ہوجائے اور اسے برداشت کرنے کی سکت ختم ہو تی محسوس ہو اور کوئی حالِ یار نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟رقص کرتے مضبوط انسانوں کو درد ایسے توڑ کر رکھ دیتا ہے جیسے آگ مضبوط سے مضبوط لکڑی کو توڑ کر جلا کر ختم کر دیتی ہے۔پھر مضبوط جسم بھی مٹی میں دفن ہو جا تے ہیں۔ پر یہ بات تو ارطغل جیسے جوانوں کے بارے میں ہے جو اپنے ہاتھوں مضبوط تلوار لیے اپنے دشمنوں کے پیچھے ہو تے ہیں پر ان ماؤں کا کیا حال بیان کیا جائے جو بس مائیں ہیں۔مسکین مائیں۔محبت کی ما ری مائیں،معصوم مائیں،سیدھی مائیں،ان پڑھ مائیں جو نہ تو دنیا سے واقف ہو تی ہیں اور نہ ہی دنیا کی حرام خوریوں سے وہ بس اپنے کچے گھروں میں رہتے ہیں اپنے بہت سے معصوم بچوں کو شام کے بعد رات سے پہلے روکھے سفید چاول بھیڑ بکری کے دودھ کے ساتھ دیتی ہیں اور رات ہو تی ہی ان کے پہلوں میں لیٹ جاتی ہیں پھر رات بھر کوئی بچہ ماں سے پانی مانگتا ہے۔کوئی ماں سے کہتا ہے کہ اسے سردی لگ رہی ہے کوئی کہتا ہے ماں مجھے تمہا رے ساتھ سونا ہے۔کوئی بچہ بہت ضد کرتا ہے کہ ماں اسے اپنی بہانوں میں سلائے کوئی بچہ ماں سے یہ پیار بھری شکایت کرتا ہے کہ اسد اب بڑا ہو گیا ہے پر تو نے اسے اپنی بہانوں میں سلایا ہے ماں اگر تو مجھے اپنی بہانوں میں نہیں سلا رہیں تو کوئی بات نہیں پر رات کو نیند میں تو مجھ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا کر ماں مجھے ڈر لگتا ہے!
پر ایک ماں بہت سے بچوں کے درمیان محبت کو تقسیم کر کے نہیں پر ضرب کر کے جیتی رہتی ہے!
جب ایسی ماں دردوں اور دکھوں سے ٹوٹ جائے تو پھر اس ماں کے لیے یہی الفاظ لکھے جا سکتے ہیں کہ
،،خاک کو خاک میں مِلانے کا
موت کیسا عجیب بہانا ہے!،،
وہ ماں جس ماں نے بہت سے بچے جنے اور بہت سے بچے پالے
وہ ماں جس نے اپنی محبت کو بہت سے بچوں میں تقسیم نہیں کیا پر ضرب کیا
وہ ماں جس نے اپنی بانہوں میں کلثوم کو سلایا تو اپنا محبت بھرا ہاتھ فتاح چنا پر رکھا
وہ ماں جو بھوکوں رہ کر بہت سے بچوں کا بہت قلیل غذا سے پیٹ بھرتی رہی
وہ ماں جس کا سابقہ بس دکھوں سے رہا
وہ ماں جس نے بچے ایسے پالے جیسے کوئی مالی بہت ہی کمزور پودوں کی نگہداشت کرتا ہے
وہ ماں جس نے شام کے فوراً بعد ہی اپنے بچوں کو سفید روکھے چاولوں کے ساتھ دودھ دے کر سلایا دیا
وہ ماں جو دنیا کی حرام خوریوں سے واقف نہیں
وہ ماں جو بچوں کے چھوٹے ہو تے ہوئے بہت مصروف رہی
اور اب بچوں کے جوان ہو نے پر بہت اکیلی ہو چکی ہے
وہ ماں جو بس ماں تھی تو گھر کے کاموں میں غرق رہی
اب جب نانی بھی ہے اور دادی بھی تو اکیلی ہے
ایسی اکیلی جیسا آکاش میں سورج اکیلا ہوتا ہے یا پھر چاند
وہ ماں نہیں جانتی تھی کہ جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو اس ماں کا پالا دکھوں سے پڑے گا
وہ ماں جو اپنے معصوم بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بڑا ہو تی دیکھتی رہی
جو معصوم تھی
جو مسکین تھی
جو سیدھی تھی
جو ان پڑھ تھی
جو نادان تھی!
وہ ماں اوشو کی اس بات سے واقف نہیں تھی کہ
،،زندگی ایک نغمہ ہے ایک رقص ہے!،،
پر اب وہ ماں اوشو کی اس بات سے واقف ہو چلی ہے کہ
،،زندگی ایک عذاب ہے زندگی ایک دردِ مسلسل ہے!،،
کیوں کہ اس معصوم ماں کا بیٹا اس ریا ست کو پسند نہیں تھا اس بیٹے کا بس یہ قصور تھا کہ اسے جیسی محبت ماں سے رہی تھی،جیسی محبت محبوبہ سے رہی تھی ایسی ہی محبت اسے اس دھرتی سے بھی رہی تھی جسے سندھ کہتے ہیں وہ بیٹا سندھ سے ماں اور محبوبہ جیسی محبت کرتا رہا پر نہ تو ان ہاتھوں کو وہ محبت پسند آئی جو محبت اس بیٹے کو سندھ سے تھی اور نہ اس ریا ست کو جو ریا ست کو اس ملک سے محبت کرنے والے تو پسند ہیں پر وہ جوان پسند نہیں جو جوان ان دھرتیوں سے بھی محبت کرتے ہیں جو دھرتیوں کی بولی ان کی ماں اور محبوبہ بولتی ہیں وہ جوان ان دھرتیوں سے اسی لیے ہی محبت کرتے ہیں کہ ان دھرتی جیسی وہ سرتی ہو تی ہے جو ان کی محبوبہ ہو تی ہے اور اسی دھرتی کی وہ بولی ہو تی ہے جو وہ مائیں بولتی ہیں جو مائیں مسکین ہو تی ہیں۔

اس لیے دھرتی کے غیرت مند بیٹے محبت کا پیچ ان دھرتیوں سے لڑا بیٹھتے ہیں جو محبت ان ہاتھوں کو پسند نہیں جن ہاتھوں کو خفیہ ہاتھ کہا جاتا ہے۔

پر وہ مائیں تو نہیں جانتی کہ خفیہ ہاتھ کیا ہو تے ہیں اور ریا ست کس پٹے کا نام ہے یا یہ ریا ست کس طوق کا نام ہے؟ماؤں کے بیٹے دھرتی سے ماں جیسی محبت کرتے ہیں اور ریا ستیں ان ماؤں کے گلوں میں جدائی اور غموں کا طوق ڈال دیتی ہیں
اور وہ مائیں جو مسکین مائیں ہو تی ہیں وہ اپنے غم شدہ بیٹوں کی جدائی میں سالہ سال رو تی رہتی ہیں بھٹکتی رہتی ہیں دربدر ہو تی رہتی ہیں آنکھوں سے اشک ختم ہو تے ہیں پر ان ماؤں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتی
پھر وہ غموں کی ما ری مائیں لطیف کی طرف منہ کر کے یہ فریاد کرتی ہیں کہ
،،اُتر لگو،سر نسریا
تو کان مون سؤ سؤ سکھاؤں کیون!،،
وہ پھر بھی نہیں لو ٹتے
پھر ان ماؤں کی خشک زبانوں پر بابا فرید کی یہ درد بھری شکا یت ہو تی ہے کہ
،،کملی کر کہ چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تا رولاں!،،
وہ اسیران ِ محبت پھر بھی نہیں لوٹتے اور ان ماؤں کی انتظا ری اور طویل ہو جا تی ہے اسی کے ساتھ ساتھ ان منتظر ماؤں کا واپسی کا وقت بھی قریب تر ہو جاتا ہے اور وی ایک ایک کر کے وہاں چلی جا تی ہیں جہاں ان کو ان کی بھی خبر نہیں آتی
ایسی ہی اک ماں سندھو دیش سے محبت کرنے والے گمشدہ فتاح چنا کی ہے جو اب اپنے بیٹے کا انتظار کر تے کرتے بس جانے کو ہے معلوم نہیں کب سیٹی بجے اور ٹرین چل پڑے؟!!!
وہ لڑکے دھرتی سے عشق کرتے ہیں پھر گم کردیے جا تے ہیں اور لوٹتے ہی نہیں!
اور مائیں انتظار کرتے کرتے مر ہی جاتی ہیں
،،تھا موجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لیے گیا کھیل نکال!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں