26 اپریل 2022 کو بلوچستان کے ڈسٹرکٹ پنجگور کے علاقے گچک سے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں دو بلوچ خواتین، شاہ بی بی اور شہزادی کی ایک چھ دن کی نومولود بچی کے ساتھ جبری گمشدگی پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے راجی بلوچ وومن فورم نے مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دو لاپتہ خواتین کے ساتھ ایک چھ دن کی بچی کے اغوا پر راجی بلوچ وومن فورم اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ کیسے کسی بچی کو جو ابھی دنیا میں سانس لینے کے عمل سے بھی مکمل واقف نہیں ہے اور جبراً والدہ کے ساتھ لاپتہ کر دی جاتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ راجی بلوچ وومن فورم اس بات پر زور دیتا ہے کہ بلوچ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری اس طرح کے واقعات جو ریاستی وہ ادارے کرتے ہیں جنہیں جرائم کو روکنا چاہیے، وہ خود جرائم کو پھیلا کر بالخصوص بلوچ عوام کو مزید بہراروی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح بلوچ نوجوانوں میں شورش اور تنازعات میں اضافہ ہوگا۔
مزید کہا گیا کہ راجی بلوچ وومن فورم اس بات سے قطعی انکاری نہیں کہ یہ عام معمولات ہیں جن کا سامنا بلوچستان کے عوام کو آئے دن کرنے پڑ رہے ہیں، اور کوئی نیشنل میڈیا ایسی خبروں کو سامنے لانے کے لیے تیار نہیں ہے، لہذٰا ہم جیسے ادارے جو اپنے لوگوں اور بالخصوص عورتوں/لڑکیوں کی آواز بن کر ابھرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے معلومات تک رسائی آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے اتنے بڑے واقعات کے لیے بھی اپنا بیان جاری کرنے کے لیے ہمیں کہیں سارے ریسورسس کو ڈھونڈ کر، ان کی تصدیق کروا کے اپنا بیان ریکارڈ کرنا پڑتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ راجی بلوچ وومن فورم ریاستی اداروں کے کئے ہوئے اس طرح کے عمل سے جو گھروں کے اندر گھس کر خواتین کی بےحرمتی، تشدد اور جبراً لاپتہ کرنے تک پہنچ جاتے ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں اور فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جو غیر قانونی سیکیورٹی فورسز کے حراست میں ہیں۔
جہاں عورتیں اور لڑکیاں شہروں میں محفوظ نہیں ہیں وہاں ہم یہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ غیر قانونی حراست میں وہ محفوظ ہیں۔ حراست میں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بشمول ان کے انسانی وقار کو پامال کرنے کے انہیں ذہنی تشدد، جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
راجی بلوچ وومن فورم نے مطالبہ کیا کہ نہ صرف کرکِ ڈل، گچک سے لاپتہ کئے ہوئے خواتین بلکہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ اور ان کے لیے قانونی طور پر غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں۔