بلوچستان کی عید باقی پاکستان سے مختلف کیوں؟
تحریر: یلان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ جو بلوچستان یا دنیا کے کسی بھی کونے میں آبادہیں، انہیں بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ آج ہر بلوچ کو معلوم ہے کہ کہ ہماری عیدیں کیسے گزرتی ہیں۔
لیکن ایک عام آدمی جو پاکستان جو لاہور، کراچی، اسلام آباد، اور پشاور و حیدر آباد میں رہتاہے اس مضمون کا مقصد انہی کو بتاناہے کہ ایک بلوچ کی عید باقی پاکستان سے مختلف ہے۔
پاکستان بننے کے وقت سے لیکر ہم نے آج تک مطالعہ پاکستان سمیت پاکستانی آئین وقانون کے رکھوالوں سے سناہے کہ پاکستان ایک شناخت اور پاکستانی ایک قوم ہے، کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہم سب کا رشتہ پیوست ہے۔
مگر جب میں ایک بلوچ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک نظر اپنے اردگرد پر پھیرتاہوں اور دوسری نظر باقی پاکستان پر تو مجھے مختلف پاکستان اور مختلف جہتیں نظر آتے ہیں۔
شاید ایک پاکستانی کی حیثیت سے آپ لاہور، کراچی، اور پشاور واسلام آباد میں رہتےہیں تو آپ کو ایک پاکستان، ایک قوم اور ایک ہی چیز نظر آتی ہے لیکن آپ اگر بلوچستان کے بارے میں معمولی جانکاری رکھتے ہیں تو بلوچستان وبلوچ آپکو اس بندھن سے الگ نظر آتی ہے۔
ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے آپ جب لاہور، کراچی، واسلام آباد میں عید کی صبح اٹھتے ہیں تو آپکو یہ فکر ہے کہ عید کی صبح اٹھ کر سب سے پہلے مجھے اپنے محلے کی فلاں عیدگاہ میں جاکر نماز پڑھناہے، پھر اپنے فیملی کو لیکر سیر وتفریح کیلئے لاہور کے بادشاہی مسجد، مینار پاکستان اور واہگہ باڈر، یاپھر کراچی کے ساحل سمندر کلفٹن،گارڈن کے چڑیاگھر، یا پھر مزار قائد جانا ہے اور دوپہر کا کھانا برنس روڈ پر کسی معروف ومشہور پکوان کے پاکستان بچوں کیساتھ جاکر کھانا ہے، یاپھر آپ اگر اسلام آباد میں عید کی صبح کا آغاز کرتے ہیں تو آپ نماز عید پڑھنے کیلئے مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں، دامن کوہ، فیصل مسجد یا پھر مری کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کیلئے وہاں کا رخ کرتے ہیں اور برفیلی ہواؤں اور ٹھنڈی درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر بال بچوں کیساتھ عید کا دن خوشیوں سے گزارتے ہیں، یاپھر اگر آپ پشاور میں رہتے ہیں تو تو آپ سیر وتفریح کیلئے پشاور کے ارگرد کسی تفریح گاہ، یاپھر سوات کا رخ کرتے ہونگے اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کیساتھ وہاں عیدکی خوشیاں مناتے ہونگے اور یوں ہی آپ کی عید خوشیوں سے بھرپور عید ہوتی ہے اور آپ اپنے پیاروں، عزیزوں اور دوستوں سے گھل مل جائیں گے اور دنیا سے اس دن کم ازکم بے خبر ہونگے۔
مگر آپ نے لاہور، کراچی، اسلام آباد، وپشاور میں رہتے ہوئے کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان کی بلوچ مائیں،بہنیں،بیٹیاں،اور جوان و بوڑھے اپنی عید کا آغاز کیسے کرتےہیں؟
تو آئیں آج آپ کو بلوچستان میں گزرتی عید کی روداد سناتے ہیں۔
پاکستان کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا بلوچستان اور اس کی وسیع وعریض خوبصورت نیلگوں سمندر کے دلکش مناظر، خوبصورت پہاڑوں کی چٹانیں، میلوں میل پھیلے ہوئے کجھور کے باغات، بہتے چشمے، یہ وہ دلکشن وحسین مقامات ومناظر ہیں جو بلوچ قوم کیلئے عیدکی خوشیاں منانے کیلئے کافی ہیں۔
مگر۔۔۔ ایک درد ہے کہ بلوچ بچے،بچیاں، بوڑھے، جوان، مرد وخواتین، قومپرست اور ملا سب ملکر بعدنماز عید سیر وتفریح کیلئے خوبصورت مقامات کا رخ کرنے کے بجائے، اپنے لاپتہ پیاروں کی گمشدگی کی بھیک مانگنے کیلئے پریس کلبوں، چوکوں، اور سڑکوں پر انصاف کی خاطر نکلتی ہیں۔
شاید آپ نے بلوچستان کا نام صرف کوئٹہ سناہے، یاپھر آپ کے خیال میں گوادر ہی بلوچستان ہے۔۔نہیں۔۔۔ بلوچستان تفتان سے جیونی تک اور بارکھان و کوہلو سے لیکر افغانستان وایران تک پھیلی ہوئی ہے۔
باقی پاکستان سے الگ یہ لوگ اپنی عید منانے کیلئے نماز عیدکے بعد بجائے قبرستانوں کا رخ کرکے اپنے پیاروں کی مغفرت کیلئے دعا کریں بلکہ بقولِ آپکے یہ بلوچی بھائی اپنے زندوں کی باحفاظت بازیابی کیلئے دہائیاں دیتے، بھیک مانگتے، اور ان سے التجائیں کرتے نظر آتے ہیں کہ جن کے بارے میں ملکی وزیر اعظم بھی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتےہیں کہ “لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بات کروں گا” ملکی وزیر اعظم کا یہ جملہ بلوچ قوم کیلئے پیغام ہے کہ ملکی سربراہ ہوتے ہوئے میرے بس میں نہیں کہ میں سمی کے لاپتہ باپ ڈاکٹر دین محمد کو بازیاب کروں، یاپھر بیبگر امداد کی والدہ کو یہ دلاسہ دوں کہ آپ عید کے روز تربت شہید فدا چوک پر اپنے جوانسال بچے کے عیدکی کپڑوں، جوتوں اور گھڑی کو لیکر گھر جائیں کہ آپ کا پیارا جوانسال بیٹا عید کے دن بحفاظت گھر پہنچے گا۔
یہ سلسلہ آج کانہیں کہ بلوچستان کی عیدیں سڑکوں، پریس کلبوں، اور چوکوں پر احتجاج کرتے ہوئے گزرتی ہیں، بلکہ یہ سلسلہ طویل ہے، اور بہت طویل ہے۔
مگر ملکی میڈیا پابند ہے کہ وہ عید کے روز باقی پاکستان کی کوریج کرے، کہ کون اپنے فیملی کیساتھ کہاں اور کس پارک میں عید گزار رہاہے، یا لاہوریوں نے کس مقام کو عید گزارنے کیلئے پسندکیاہے یاکراچی کے لوگ کس پکوان سے کھانا کھا رہے ہیں اور ساحل سمندر پر رش کتنی ہے۔
اگر پاکستان کی میڈیا کو بلوچستان میں گزرتی عیدوں کی کہانیاں دکھانے کی اجازت مل جاتی تو پھر پاکستانیوں کو یہ پوچھنا نہیں پڑتا تھا کہ جی بلوچیوں کامسئلہ ہے کیا؟
بلکہ انکی آنکھوں کے سامنے عید کے روز پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے بلوچ معصوم بچوں وبچیوں کی وہ تصاویریں بلوچستان کامسئلہ سمجھنے کیلئے کافی تھیں جو اپنے باپ، بھائیوں کی گمشدگی کی تصویریں اٹھائے احتجاج پر ہیں۔
بلوچستان کو بندوق کی نوک پر چلانے کی کوششیں سترسالوں سے جاری ہیں، بلکہ پاکستانی مفکر فخریہ انداز میں کہتے ہیں جی بلوچستان ہاتھ سے نکلا نہیں بلکہ بلوچستان کے وہ مقام جہاں فورسز نہیں جاسکتی تھی اب وہاں بھی ہماری چیک پوسٹیں وچھاؤنیاں قائم ہیں، لیکن ان کو کیا پتہ کہ ملکی مضبوطی اسمیں نہیں کہ آپکی چیک پوسٹ وچھاؤنیاں کہاں تک قائم ہیں بلکہ دلوں میں جھانکنے کی کوشش کریں، چیک پوسٹوں پر شناختی کارڈ پوچھنے اور کہاں آرہےہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ پوچھنے سے پہلے ان بوڑھوں، جوانوں، طالبعلموں اور مزدوروں کے چہروں کے آثار بھی پڑھیں کہ جن کے دلوں پر یہ جملہ چیرکر گزرتی ہے، تب آپ فخر کریں کہ آپ نے بلوچستان کو مضبوطی سے تھاما ہے۔
آخرمیں صرف اتنا کہوں گا کہ کہ بلوچستان میں عیدالفطر مذہبی جوش وجذبے کیساتھ انتہائی احترام وعیقدت سے منایاگیا جہاں تربت، کوئٹہ، کراچی، پنجگور، اورگوادر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ نماز عید پڑھنے کے بعد چوکوں اور چوراہوں پر جمع ہوگئے اور ان سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ “بلوچستان میں جبری گمشدگیاں،بند کرو، بند کرو”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں