بلوچ راج کے جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غازی یونیورسٹی ڈی جی خان میں طلباء کے اسٹڈی سرکل پر دھاوا بولنا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایک بلوچ طالب علم کو جبری طور پر اغوا کرنا تشویشناک عمل ہے۔
بلوچ راج کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ آج غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں بلوچ طلبا و طالبات کے اسٹڈی سرکل پر یونیورسٹی انتظامیہ نے دھاوا بول کر طلبا اور طالبات کو ہراساں کیا گیا جب کہ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ علی تارڑر نے طالبات کی ویڈیوز اور فوٹو شوٹ کی اور گالی و گالم گلوچ کی جو کہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ طالب علم اپنی تعلیمی پیاس کو بجھانے کے لیے خود اسٹڈی سرکل اور مختلف سرگرمیاں اپنے مدد آپ کے تحت کرتے ہیں تاکہ ان طالب علموں کی اچھی اصلاح ہو اور وہ معاشرے کا ذمہ دار شخص بن سکیں لیکن افسوس ان ادبی نشستوں کو سپورٹ کرنے کی بجائے ان پر طالب علموں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ جو تعلیم دشمن پالیسی کو واضح کر رہا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا آج صبح پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بیبگر امداد نامی ایک اسٹوڈنٹ جو کہ نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم ہیں ان کو تشدد کے بعد جبری لا پتہ کیا گیا جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے کہ کہاں اور کس حال میں ہے۔
بلوچ راج کے مرکزی ترجمان نے بیان کے آخر میں گورنمنٹ اور اعلیٰ اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کا فالفور نوٹس لیا جائے اور ایسے عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے کیونکہ اس طرح کے واقعات بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں جس کا یہ سماج متحمل نہیں ہو سکتا۔