میرا تعلق ضلع گوادر کے علاقے کلانچ بلار سے ہے۔ میرا گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے، جس وجہ سے علاقہ مکین ایک سادہ سی زندگی بھی گزارنے میں پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ ترقی پذیری اور سہولیات کی عدم دستیابی نے ہی میرے والدین کو مجبور کیا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کلانچ کو چھوڑ کر ایک بہتر زندگی کی تلاش میں کراچی آگئے۔ دیگر متوسط طبقے کی لڑکیوں کی طرح میرا پہلا مقصد بھی خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔ اور میں خود کو ایک خوش قسمت بیٹی سمجھتی ہوں کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملی، ایسے لاکھوں بیٹیوں کو اب بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملتی، کیونکہ انکے گھر والوں کو لگتا ہے بیٹی کا گھر سے باہر نکلنا خاندان کے نام کو داغدار کردیگی۔
اب میں نے بی ایس اکنامکس کی ڈگری حاصل کرلی ہے، لیکن دسویں جماعت سے لیکر ڈگری کے حصول تک کا سفر میرے لئے ہرگز آسان نہ تھی، یہ میری ثابت قدمی اور میری لگن ہی تھی جس نے مجھے مصیبتوں کا سامنا کرنے کی ہمت دی اور آج اس مقام تک لاکھڑا کیا۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ کس طرح میں اپنی فیس معاف کروانے کی غرض سے ڈین آفس گئی، ان سے ملنے سے پہلے میں سینکڑوں بار سوچتی رہی کہ جاؤں یا نہیں، مگر بالآخر میں انکے دفتر میں گئی۔ اپنی پوری کہانی بیان کرنے کے بعد میں نے بس ان سے یہی درخواست کی کہ میری فیس معاف کردی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’پہلے آپکو فیس جمع کرنا پڑیگا، مگر میں کچھ کر کے وہ واپس کروا دونگا’’، اس کے بعد انھوں نے فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف سے فیس کی ادائیگی کی پیش کش کی مگر میں وہ پیش کش قبول نہیں کر پائی۔
یہ میرے لئے فیصلہ کن لمحات ثابت ہوئے، اور تب میں نے ٹھان لیا کہ اگر مجھے آگے بڑھنا ہے تو میرے ان بکھرے پروں کے ساتھ ہی اڑان بھرنا ہوگی۔ میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی اور بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا۔ مجھے بچوں سے فیس ایڈوانس میں لینا پڑتا تھا کیونکہ انھی پیسوں سے مجھے اپنا بھی فیس بھرنا پڑتا تھا۔ اس دن سے میرا بوجھ بھی بڑھتا گیا کیونکہ مجھے یونیورسٹی میں لیکچرز اٹینڈ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ٹیوشن کی تیاری بھی کرنا پڑتی تھی، لیکن تعلیم کے لئے ،میری پیاس نے مجھے امید کی کرن تھامے رکھنے کا حوصلہ دیا۔ میری جماعت میں اسی طلبا و طالبات تھیں اور مقابلہ کانٹے کا رہتا تھا، اس کے باوجود میں نے اپنا لوہا منوایا اور گولڈ میڈل کے ساتھ اپنی ڈگری حاصل کی۔ انھی دنوں میں ریڈیو پاکستان، کراچی میں بطور‘‘آر جے’’بھی کام کرتی رہی۔
اب میں پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن میں ایک آفیسر کی حیثیت سے کام کرتی ہوں اور کراچی اسٹیشن میں سب سے کم عمر پروگرام پروڈیوسر ہوں۔ حال ہی میں مجھے ملٹی میڈیا کورس کرنے کا موقع ملا جسکا موضوع تھا ’’خواتین کے حقوق کے بارے میں بدلتے خیالات’’، جو کیریڈیو نیدرلینڈز نے پی بی سی کے ساتھ ملکر سرانجام دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے کئی پروگراموں کا حصہ بنی ہوں جنکا عنوان جنسی برابری اور اپنی ذات کو کارآمد کس طرح بنایا جائے رہیں ہیں۔ ان سے ہٹ کر کئی ورکشاپس میں شامل ہونا میری کیرئیر کا حصہ بنی ہیں۔
جدوجہد کی یہ کہانی آج ایک کہانی بنی ہے تو صرف میرے والدین کی سپورٹ کی وجہ سے، یہ میرے والد ین ہی تھے جنھوں نے ظلمتوں میں مجھے دیا تھما دیا اور مجھے گھنے کالے بادلوں کے پار ایک سورج کے ہونے کی امید دلائی۔ میری کامیابی کے پیچھے میں مزید اور تین ناموں کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ میرے دادا محمد احمد، جو میرے اسکول کے زمانے سے ہی میرے ٹیوٹر رہے۔ سر عامر جنہوں نے مجھے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرایا۔ سب سے آخر میں میرے دل کے سب سے قریب استاد، پروفیسر صباء دشتیاری جنھوں نے مجھے مایوس لمحوں کو خوشی بھرے لمحوں میں بدلنے کا فن سکھایا۔ میں انھیں اب بھی اپنا روحانی استاد تصور کرتی ہوں۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ اگر آپ محنت اور کوشش سے نہیں ڈرتے، تو دنیا میں کوئی بھی چیز آپکو اپنے منزل تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔