نظریہ آزادی
تحریر: اسلم آزاد
دی بلوچستان پوسٹ
نظریہ آزادی دنیا کا عظیم تریں نظریہ ہے۔ نظریہ آزادی انسان، معاشرہ اور قوموں کے لیے نعمت ہے۔ نظریہ آزادی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی خوبصورت شے نہیں ہے۔ آزادی سے زندگی گذارنے کا مطلب کسی قسم کی غیر ضروری اور غیر قانونی پابندی نہ باندھی ہوگی۔ ہاں آزادی کے ذمہ داری ضرور ہے۔ آزادی انسان، معاشرہ اور قوم کی وجود ہے۔
آزادی: اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ اور عمل کرنے کا نام آزادی ہے۔ خوف کی عدم موجودگی کو بھی آزادی کہتے ہیں۔ آزادی کی متضاد غلامی ہے۔ آزادی کی نعم البدل کوئی شے نہیں بلکہ یہ سیاسی، انقلابی، ذہنی، اخلاقی اختیار و ہمت ہے۔
آزادی کی حالت میں انسان، معاشرہ اور قوم خود مختار اور بااختیار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فیصلے کرنے کی قوت خود رکھتے ہیں مطلب ان کے پاس حق خوداریت ہوتی ہیں۔ کوئی سردار، سرمایہ دار، یا سامراج ان پر راج نہیں کریگا۔ انسانی آزادی اس وقت ممکن ہے جب سماج آزاد ہوگا، سماجی آزادی اس وقت ممکن ہے جب قوم آزاد ہوگی جب قوم کی ایک ریاست ہوگی، ریاست کا اپنا ایک جغرافیائی، آبادی، حکومت اور سیاسی سالمیت ہوگی۔
آزادی کے بغیر انسانی معاشرے میں امن، انصاف، حق اور برابری ناممکن ہے کیونکہ جب معاشرے آزاد نہیں ہوگا پھر انصاف اور برابری کا تقاضا بھی پورا نہیں ہونگے، مثال کے طور پر عدلیہ انصاف نہیں کرسکتا ہے، حکومت کی اہمیت و اختیار نہیں ہوگا، پالیمنٹ برائے نام ہوگا۔ جس کی پریکٹیکل مثال پاکستان، افغانستان اور سیریا کی ہے۔
قومی خوشحالی و بدحالی کا تعلق بھی قومی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک ایک قوم کی اپنی آزاد اور خودمختار ریاست نہیں ہوگی، اسکے سائل وسائل، قوت فیصلہ اور حق حاکمیت اسکے اپنے قبضے میں نہیں ہونگے پھر اس طرح قوم کے فرزندوں کے مقدر میں ذلالت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
دیکھا جائے تو یہ ہر صاحب علم و صاحب عقل کو یہ بصیرت ہے کہ آزادی انسان کا فطری حق ہے۔ وقت کی روانگی کے ساتھ ساتھ آزادی کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ مظلوم قومیں نے آزادی کی کمی کو محسوس کیا، وہ متحد ہوکر قومی آزادی کے لیے ہزاروں سال بڑی خونریزی جنگ لڑی اپنے آپ کو ظالم اور جابر سامراجوں سے آزاد کیا ہے۔ پھر یہی قومی آزادی کی کرن سماج کے ہر پہلو تک پہنچ گئی۔ مثال کے طور پر امریکہ، ویت نام، کیوبا، اسرائیل جہاں لوگ پرامن اور خوشحال زندگی گراز رہے ہیں۔
انسانی آزادی کی تین درجات ہیں:
پہلا درجہ ذہنی (cognitive) سوچ میں آزادی ہے۔ مطلب نظریاتی حوالہ سے کلیئر ہونا اپنے غلامی اور آزادی کے بارے میں باعلم ہونا، سوچ کی سمت کلیئر۔ بندہ اپنے سوچنے، سمجھنے اور بیرونی دنیا کو معنی دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
دوسرا درجہ جذبات (emotional) آزادی محسوس کرنے میں آزادی۔ انسان اس وقت اپنی اور دوسروں کے دکھ و درد کو آزادانہ طریقہ سے محسوس کرسکتا ہے جب اسکی سوچ پوری طرح ہو۔ احساسی حد تک آزادی اس وقت ممکن ہے جب باقی سارے لوگ بھی جذباتی صورت میں آزاد ہو ورنہ انسان ایک دوسرے سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، ایک انسان کی غلامی دوسرے انسان کی غلامی ہے۔
تیسرا درجہ عمل (Behavioral) حرکت و سکنات میں آزادی۔ یہ آخری درجہ ہوتا ہے آزادی کا یہاں انسان صرف سوچ اور محسوس کرنے کے حد تک خاموش نہیں ہے بلکہ بغیر خوف و بندش عمل کرنے میں بھی کامیاب ہے۔ اس قسم کی آزادی اس وقت تک ممکن ہے جب انسان سماجی اور قومی صورت میں آزاد۔ آزادانہ حرکت و سکنات اس وقت ممکن ہے جب کے معاشرہ میں ایک آزاد ساخت(structure) موجود ہے۔ عملی آزادی، شخصی آزادی تک قید نہیں ہوسکتا ہے۔ آزادانہ عمل اس۔ معاشرہ میں ممکن جہاں ایک ساخت آزادی میسر ہو۔
انسانی آزادی صرف سوچ اور محسوس کرنے کے حد تک کافی نہیں، کیونکہ انسان پورا as a whole ایک معاشرہ اور ریاست کا عنصر(unit) ہے۔ جب معاشرہ اور قوم غلام ہے تو شخصی آزادی بھی ممکن نہیں ہے۔
آزادانہ عمل ایک آزادانہ ایک آزادانہ سماج میں ممکن ہے۔ آزادانہ سماج اس وقت ممکن ہے، جب قوم کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہوگی۔ بصورت دیگر غلامانہ سماج میں آزادانہ عمل جرم تصور کیا جاتا ہے۔
فرد واحد اس وقت تک آزادانہ فیصلہ اور عمل نہیں کرسکتا ہے جب معاشرے اور قوم آزاد نہیں ہے۔ بصورت دیگر شخصی آزادی صرف خیالی حد تک محدود ہوتا ہے، جب تک عملی (practical) آزاد نہیں ہوگا، پھر وہ آزادی صرف ایک خوش فہمی ہوسکتا ہے۔
آزادی اور ذمہ داری۔۔۔
آزادی کے ساتھ ذمہ داریاں بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے بندہ یا قوم آزاد ہے پھر وہ ہر چیز کرسکتا ہے، دوسروں پر ظلم و بربریت کرسکتے ہیں، اپنی آزدی کی مثبت کے بدلے منفی استعمال کریں مثال کے طور پر دوسروں کی حق تلافی کریں، دوسرے لوگوں کی آزدی کو مجروح کریں، آزادی بلکل ایسا نہیں ہے بلکہ آزادی کا مقصد فرد یا قوم اپنے ہر عمل کا ذمہ دار اور جوابدہ بھی ہے۔ آزادی اور زمہ داری ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔
آزادی بے لگام بغیر ذمہ داری ہو تو آزادی ایک وحشت بن جائے گی جو کہ انسان، معاشرہ، قوم کے لیے بھی انتہائی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
نظریہ آزادی کا فلسفہ:
ہر وہ فلسفہ جو انسانی، قومی خودمختاری کا دعویٰ کرتا ہیں، اس کو نظریہ آزادی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ فلسفہ انسانی، سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی، تقافتی، صحافتی، نفسیاتی یا انفرادی آزادی ہوسکتے ہیں۔
غلام انسان، معاشرہ اور قوم کی کوئی دین، مذہب، لسان، زبان، تقافت و تاریخ نہیں ماسوائے غلامی کے کیونکہ غلام کا ہر چیز زاویہ نظر غلامی ہے۔
غلام انسان، معاشرہ یا قوم کی سے بنیادی ضرورت آزادی ہے۔ غلام انسان یا قوم کا واحد فلسفہ نظریہ آزادی ہے، غلام قوم نظریہ آزادی پر وہ ایمان لاکر، سردار و سامراج کے تشدد کا استعمال کرکے اپنی قومی غلامی کو شکست دے سکتے ہیں۔ تشدد قومی آزادی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
نظریہ آزادی ان مظلوم اور محروم لوگوں کے لیے آکسیجن کا کردار ادا کرتا ہے جو غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نظریہ آزادی ان غلام سماج اور قوم کو سمت، سوچ اور حکمت عملی مہیا کرتا ہے، جو آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
نظریہ آزادی کا تاریخ قدیم ترین تاریخ ہے۔ انسانی تاریخ میں جتنے بھی قومی یا انقلابی تحریکیں چلائی گئی یا جنگیں لڑی گئی تھی ان سب کا بنیادی مقصد انسانی سماج کا آزادی تھا۔ ان سب تحریکوں کا روح رواں نظریہ آزادی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں