پاکستان میں جمہوریت و بلوچ ۔ رشید یوسفزئی

987

پاکستان میں جمہوریت و بلوچ

تحریر: رشید یوسفزئی

دی بلوچستان پوسٹ

بھٹو کو پہلے جمہوریت پسند سیاستدان کی شکل میں پیش کیا گیا اور آج تک اس کے گن گائے جاتے ہیں مگر ایک طرف پاکستان کے نوزائیدہ آئین پر اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی تو دوسری جانب بھٹو بلوچستان میں آگ و خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ پاکستانی نئے آئین کا جشن منا رہے تھے مگر بلوچستان میں ایرانی ہیلی کاپٹرز اور پاکستانی جنگی طیارے کارپٹ بمبنگ کر رہے تھے۔

امریکی ساختہ کوبرا ہیلی کاپٹرز جنہیں ویتنام جنگ میں استعمال کیا گیا تھا، شاہِ ایران نے بھٹو کی درخواست پر بلوچستان میں ان کوبرا ہیلی کاپٹرز سے بارود اور آگ برسایا۔ ہزاروں بلوچوں کو تو صرف چمالانگ کے علاقے میں بمب برسا کر شہید کیا گیا۔ زمین پہ چرتے پھرتے کسی مال مویشی تک کو نہ بخشا گیا۔ بلوچستان میں بھٹو کے بھیجے گئے ستر ہزار پاکستانی افواج چار سال تک مسلسل بلوچوں پر موت برساتے رہے۔

تب بھی بلوچستان آج کی طرح دنیا کی نظروں سے اوجھل اور میڈیا سے بلیک آؤٹ تھا۔ کسی ایک پاکستانی اخبار نے ہزاروں بلوچوں کی دردناک اموات پر ایک لفظ تک نہیں لکھا۔ امریکی صحافی سیلگ ہیریسن واحد صحافی تھا جو بھٹو اور اس کی افواج کے اس جبر کو دنیا کے سامنے لایا۔ اسی لیے آج بھی بلوچ سیلگ ہیریسن کا نام احترام سے لیتے ہیں۔

اس ہولناک اور طویل فوجی آپریشن میں امریکی ساختہ ایرانی ایچ ہیوئی گن شپ ہیلی کاپٹرز کے بے دریغ استعمال کا انکشاف سیلگ ہیریسن نے اپنے ایک مضمون Nightmare in Balochistan (بلوچستان کا ڈراؤنا خواب) میں کیا۔ یہ ہیلی کاپٹرز جن کے دونوں طرف بندوقیں نصب تھیں، تباہ کن فائر پاور رکھتے تھے۔ بلوچوں کو کچلنے کے لیے ایرانی حکومت سے 30 کوبرا ہیلی کاپٹرز منگوائے گئے جنہیں ایرانی پائلٹس اڑا رہے تھے۔ ایران کے کوبرا گن شپس اور پاکستان ائیر فورس کے چنوک ہیلی کاپٹرز بلوچوں کو نئے آئین کا تحفہ آسمان سے سنگ و آہن برسانے کی صورت میں دے رہے تھے۔ بھٹو آئین سازی کا ہیرو بنا لیکن ملک کے مظلوم صوبے کے نہتے عوام کی قتل عام کیساتھ ملک کی حاکمیت اعلیٰ کی بھی قتل عام کی. خان عبد الولی خان اور پشتونوں کے ساتھ بھٹو نے جو کیا وہ ہر تاریخ خواندہ پشتون کے حافظے پر نقش ہے، وہ پشتونوں کے اجتماعی حافظے اور تاریخ کے انتقامی ابواب ہیں۔ بھٹو کے ان شرمناک و اندوہناک و خوفناک انسانی جرائم ہی بناء پر میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ پشتون اور بلوچ جناح کو شاید معاف کرسکتے ہیں لیکن بھٹو کو معاف نہیں کرسکتے۔

ایک مردِ حر خیر بخش مری تھا جس نے 1973 میں اس آئین پر دستخط سے انکار کیا۔ اور خیر بخش مری وہ اولین جمہوریت پسند اور بعد ازاں حریت پسند نواب تھے جسے بھٹو نے جیل میں ڈالا۔ نیپ کی حکومت بھٹو نے برطرف کی۔ بلوچ رہنماؤں پر سنگین غداری اور ملک کے خلاف سازش کے مقدمے درج کیے۔ مگر خیر بخش مری ڈٹا رہا۔ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کے ترقی کے دعوؤں کو قلعی کھولتا رہا۔ دور اندیش آزادی پسند مزاحمت کار تھا۔ اسے معلوم تھا کہ نہ پاکستانی آئین میں بلوچوں اور بلوچستان کے لیے کچھ رکھا ہے، نا ہی پاکستانی ریاست میں۔ آخری سانس تک اس ریاست کی دغابازیوں، مکر و فریب اور جھوٹ کا پردہ چاک کرتا رہا۔ مری صاحب نے اس ریاست کو ناپاک اور brothel قرار دیا تھا۔ ٹھیک کہا تھا۔ ایک ایک حرف سچ ثابت ہوئی ہے۔

بلوچوں نے خیر بخش مری جیسے عظیم رہنماؤں کی باتیں گرہ میں باندھ لیں۔ اسی لیے آج بھی جب پاکستان میں آئین کی نام نہاد جیت کا جشن منایا جا رہا ہے تو بلوچ اس جیت پر دو حرف بھی نہیں بھیج رہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اس آئین نے لوٹ اور کھسوٹ اور موت کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ ایوب خان کے گماشتے بھٹو سے لے کر ضیاء، اس کے گماشتے نواز شریف، شہباز شریف، زرداری تک سب کے ہاتھ بلوچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جس نے جتنا زیادہ جمہوریت پسندی کا دعویٰ کیا، بلوچوں کو اسی نے سب سے زیادہ خون میں نہلایا۔ فوجی ڈکٹیر اور سیاستدان دونوں بلوچوں کی نسل کشی میں یکساں شریک ہیں۔ کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ نہ یہ آئین بلوچوں کے لیے ہے، نا ہی ریاست۔

آج بھی جب ہر طرف بے حس پاکستانی جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن میں ہزاروں بے گناہ بلوچوں کو نہ مارا جا رہا ہو۔ روزانہ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ طالبعلم، استاد، کاروباری، مزدور کوئی محفوظ نہیں۔ مارے جانے کے لیے بلوچ شناخت ہی کافی ہے۔ تین چار دن پہلے پنجگور سے مسخ شدہ لاش ملی۔ دو دنوں میں مزید دس پندرہ کو فوج نے اغواء کیا ہے۔ کل پھر چاغی میں، وہ چاغی جس کے سینے نے اس بدمعاش ریاست کا ایٹم بمب اپنے سینے میں برداشت کیا۔ وہ چاغی جہاں کے سونے چاندی سے جرنیل باہر جزیرے لیتے ہیں، مگر اس کے بلوچوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ وہاں کئی معصوم بلوچ ڈرائیورز پر ہیلی کاپٹرز کے ذریعے آپریشن کیا گیا۔ سینکڑوں کو ریگستان کی تپتی دھوپ میں آج سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ کئی اموات واقع ہو چکی ہیں۔ لوگ خود لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ کل سے آرمی کے کیمپ کے سامنے اور پاک ایران شاہراہ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاجیوں پر فوج نے اندھادھند فائرنگ کی ہے۔ کہاں ہیں میڈیا، آئین، جمہوریت؟

عشروں سے جاری بلوچستان ایشو اور بلوچ جینوسائڈ کی اذیت ناک مطالعے سے اب اس دردناک اور قنوطی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ روز روز مرنے، ذلیل ہونے، اپنے نوخیز و نوجوان بچوں کی گولیوں سے چھلنی لاشوں کو اٹھانے سے بہتر ہے کہ تمام بلوچ عوام اپنے اپنے دیہات اور خستہ و برباد شہروں میں اجتماعی خودسوزیاں اور خود کشیاں کریں تاکہ معدنی وسائل اور زر و زمین کی بھوکی استعمار کو ہمیشہ کیلئے زر و زمین اور وسائل ملے اور بلوچوں کو روز روز، لمحے لمحے کی ذلالت سے نجات۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں