بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دنیا میں تیزی کے ساتھ بدلتے حالات ہمارے خطے میں بھی تیزی کے ساتھ نئی تبدیلوں کا باعث بن رہے ہیں۔ معاشی و سیاسی بحران نے سماجی اقدار کو تباہی کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ دہائیوں پر محیط جبر و تشدد نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی ساخت کو شدید متاثر کیا ہے۔ جس کے باعث مجموعی سماجی رویوں میں بہت حد تک تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر سیاسی حلقوں میں عدم برداشت اور غیر جمہوری و غیر سیاسی پُرتشدد رویے مختلف انداز میں کھل کر اپنا اظہار کر رہیں ہیں اور ان رویوں سے سیاسی عمل مزید کمزوری کی جانب بڑھے گا۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھیوں نے ادارے کی خودمختار حیثیت کو بچانے کےلیے انتھک محنت کی ہے اور کئی سالوں سے تنظیم کی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس پورے عمل میں روز اول سے ہمیں بے شمار اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ سیاست پر اجارہ داری قائم کرنے والے روایتی رجحان نے بی ایس او کا گلا گھونٹنے کی ہمیشہ کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں بلوچ سماج میں مثبت، روشن اور انقلابی اقدار و رویوں کا پاسبان ادارہ بلوچ سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سے بی ایس او رہا ہے اور عوامی شعور کو بالیدگی اور بڑھوتری عطا کرنے والے اس ادارے سے غاصب قوتیں ہمیشہ خاٸف رہی ہیں چاہے وہ بیرونی حملہ آور غاصب ہوں یا پھر مقامی غاصب و استحصالی قوتیں۔ ان قوتوں نے ہمیشہ سے بی ایس او کو یرغمال بناٸے رکھنے اور اسے افردا، گروہوں، یا پارٹیوں کے طابع رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ ادارہ سیاسی، سماجی اور شعوری طورپر مفلوج رہ کر ہمیشہ ان کا دم چھلہ بنا رہے اور ان بالاٸی طبقات کے ہر استحصالی منصوبے اور مفادات کی حمایت کرتا پھرے اور سوال اٹھانے کی جرأت نہ کر سکے۔ اسی خاطر بی ایس او کے تقدس کو پامال کرکے آج افراد، گروہ اور جماعتیں اسے مفلوج و لَنگ دھڑنگ بنانے کوشش میں مسلسل لگے ہوٸے ہیں۔ اور انہیں بھی وطن پر مسلط حاکم کی طرح ایک آزاد اور خود مختار بی ایس او کھٹکتی ہے۔
ترجمان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او (بلوچستان نیشنل پارٹی کی طلبہ وِنگ) کی جانب سے ہمارے لیے ہر قدم پر رکاوٹیں پیدا کرنے کی مسلسل کوشیں کی جاتی رہی ہیں۔ جن کی جانب سے پہلے بھی ہمارے سابقہ سینئر وائس چیئرمین پر حملہ کر کے ڈنڈے برسائے گئے۔ اس کے بعد بھی تنظیم کی جانب سے منعقد کردہ ہر پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوششں کی جاتی رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کا طلبہ وِنگ پارٹی کی طاقت کے بل بوتے پر تمام تعلیمی اداروں میں بدمعاشی کرتا پھرتا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ انہوں نے تنظیمی طور پر ان پرتشدد واقعات اور غیر سیاسی رویوں کے خلاف پہلے بھی بی این پی کی قیادت کو ڈرافٹ لکھا ہے تاکہ پارٹی نوٹس لے مگر تاحال ان کے رویوں میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی بلکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی خاموشی سے یہی تاثر ملتا ہے کہ طلبہ ونگ کی ان غنڈہ گردانہ اعمال کے پیچھے انہیں بی این پی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او (بی این پی مینگل کے طلبہ وِنگ) کے اوتھل زون کے ذمہ داران کی جانب سے ہمارے ساتھیوں کو ہراساں کیا گیا اور اس کے بعد انتہائی متعصب اور غیر زمہ دارنہ غیر سیاسی و غیر اخلاقی پمفلٹنگ کی۔ حال ہی میں مرکزی سیکرٹری جنرل کے تربت کے دورے پر دوبارہ وہی غیر سیاسی و غیر اخلاقی عمل دہرایا گیا۔ عطاء شاد ڈگری کالج میں سیمینار منعقد کرنے پر کالج پرنسپل کو مذکورہ ڈنڈا بردار ٹولے کی جانب سے دھمکیاں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی مینگل کے طلبہ وِنگ کے زمہ داران ہم پر ڈیتھ اسکواڈ ہونے کے جھوٹے الزامات عائد کر رہے ہیں جس پر ہم واضح کرتے ہیں کہ اگر ہمارے کسی بھی ساتھی کا قوم دشمن عمل میں کوئی کردار رہا ہے تو عوام کے سامنے حقائق لائے جائیں۔ ہم تنظیمی طور پر بلوچ عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش ہونے کو راضی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیتھ اسکواڈ وہ لوگ ہیں جو مادر وطن کے ساحل و وسائل کی لوٹ مار و فروخت میں ملوث ہیں۔ وہی درحقیقت قوم دشمن پالیسیوں کا حصہ ہیں اور ڈیتھ اسکواڈ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس کی مثال حال ہی میں ریکوڈک کی سودے بازی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ آخر بلوچستان کے وسائل کو بیچنے کے پیچھے کن قوتوں کا عمل دخل ہے یہ بات آج کے وقت میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھتہ خوری، غنڈہ گردی، سطحی ثقافت کو پروان چڑھانے کے ذمہ داران اصل مجرم ہے جو تاریخی تباہی کا باعث بنی ہے. استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر اسٹیٹس کو کے مفادات میں کام کرنے والے ہمیشہ شعوری عمل کے مخالف رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بی این پی کے طلبہ وِنگ کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی وضاحت کی جائے اور عائد الزامات کو ثابت کیا جائے بصورت دیگر ان غنڈہ گرد رویوں کے خلاف بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے اور ان کے اصل کردار کو عوام کے سامنے لائیں گے۔