کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

148

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4632 دن مکمل ہوگئے۔ تر بت کے سیاسی و سماجی کارکن عبدالقادر بلوچ، رضا محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ آ کر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کو بلوچستان کی جبری قبضہ کو ایک نا جائز استعماری فعل ماننے کی جرت ہے اور نہ قومی جدوجہد کے لیے بلوچ عوام کی عظیم قربانیوں کے پیچھے پختہ عزم اور بے پنا تڑپ کو دیکھنے کی بصیرت ہے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ان کی استعماری ظالمانہ سوچ تمام پالیسیوں اور اقدامات کے باعث بلوچ عوام کے مصائب اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے-

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ عوام پاکستانی ریاستی پالیسیوں و اقدامات کے باعث درپیش مصائب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قومی جد وجہد کی قیمت اور قربانی سمجھ کر بڑی بہادری سے ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں-

انہوں نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ بابت پالیسی ساز فیصلے کا اختیار دراصل پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے پابند ہے حتیٰ کہ بظاہر طاقتور اور سرگرم پاکستانی اعلی عدلیہ کو بھی مقبوضہ بلوچستان میں بے لگام ریاستی دہشتگردی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں پر مارنے کی اجازت نہیں ہے –

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و امان، جبری لاپتہ افراد، بلوچ فرزندوں کے مقدمے سپریم کورٹ کے ہائی کورٹ بلوچستان میں کئی سالوں سے موجود ہیں اس بات کا مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے جب معاملے کا اختیار ہی فوج کے پاس ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ فوج تو کوئی فوجی ہی حل ڈھونڈ لے گا۔