لسبیلہ یونیورسٹی بے ضابطگیوں کا گڑ ۔ گوھر بلوچ

410

لسبیلہ یونیورسٹی بے ضابطگیوں کا گڑ

تحریر: گوھر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین دنیا کے امیر ترین سرزمینوں میں شمار ہوتا ہے مگر شومیِ قسمت بلوچستان کے باسی ابھی تک بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جیسا کہ تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات اور مواقع کی عدم دستیابی ہے۔ بلوچستان کے تعلیمی ادارے اتنے کم ہیں کہ انہیں ہم اپنے انگلیوں پر گن سکتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں سہولیات کا حد درجہ فقدان ہے یعنی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک بات تو تعلیمی اداروں کی کمی دوسری بات ان تعلیمی اداروں میں سہولت کا حد درجہ فقدان اور تیسری بات ان تعلیمی اداروں پر جاگیردارانہ نظام، تعلیمی ادارے تو قومی ہوتے ہیں مگر بلوچستان میں اپنے ذاتی مانے جاتے ہیں آئے روز طلباء طالبات کو دهمکاؤ ڈراؤ اور انہیں اُٹهانے کی دهمکی دے دو اب یہی سوچ رائج ہے۔

میں جو بات کرنے جارہی ہوں وه ہے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل (لوامز) یہاں ایک شخص ہے جو ڈپٹی ڈی ایس اے کے پوزیشن پر فائز ہے یہ موصوف یونیورسٹی کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھا ہے اور مذکوره شخص فیمیل اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرتا ہے اور یونیورسٹی میں چاپلوسی کے آخری حد میں جاتا ہے، وہ دو جگہ ایم فل میں فیل ہوا ہے اور ابھی اسی یونیورسٹی میں ایم فل کر رہا ہے بلوچ ہونے کے ناطے یونیورسٹی میں طلباء و طالبات ان کو عزت اور شرپ بخشتے ہیں مگر مذکوره شخص نے آج بلوچ دشمن پالیسی اپنایا ہوا ہے۔

لسبیلہ یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک پروگرام ہال ہے جو طلباء و طالبات کے لئے ہمیشہ بند ہے جبکہ ہر روز فوجی سیمینار کیلئے کُھلا رہتا ہے اور مذکوره شخص فوجیوں کیلئے طلباء و طالبات کو ہمیشہ کلاسوں سے نکال کر فوج کی طرف سے منعقد کردہ سیمینار کیلئے ہال میں لے جاتا ہے۔ یہ ہر روز کام اب ہر روز کا معمول بن چکا ہے۔

ایک حد درجہ بری حرکت اس میں پایا جاتا ہے کہ اس شخص سے پہلے پروگرام ہال ہمیشہ طلباء و طالبات کے لئے کھلا رہتا تھا مگر اس شخص کے آنے کے بعد یہ ہال ہمیشہ طلباء و طالبات کیلئے بند ہے کیونکہ جب فیمیل اسٹوڈنٹس آتے ہیں پروگرام ہال کے حوالے تو یہ شخص رجسٹرار کے پاس بھیج دیتا ہے اور خود رجسٹرار کو فون کرکے کہتا کہ منع کردو اور بعد میں خود پروگرام ہال دیتا ہے اور اس عمل کو احسان ظاہر کرکے فیمیل اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرتا ہے۔

یہ صرف ایک شخص نہیں بلکہ لسبیلہ یونیورسٹی ایسے شخصیات سے بھری ہے، مزید شخص سامنے آئیں گے اگلے قسط میں…..


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں