اسپلنجی میں تعلیمی نظام و لائبریری کی ضرورت ۔ نجیب اللّہ بنگلزئی

491

اسپلنجی میں تعلیمی نظام و لائبریری کی ضرورت

نجیب اللّہ بنگلزئی

دی بلوچستان پوسٹ

سیکھنے اور سیکھانے کا عمل صدیوں سے جاری و ساری ہے، اور یہ عمل ہمیشہ کیلئے جارہی رہیگا، جن لوگوں یا قوموں میں سیکھنے کی چاہت ہوتی ہے وہ سیکھ کر دوسروں کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن دنیا میں ہزاروں کے حساب سے ایسے انسان ملتے ہیں جنہوں نے سیکھنے کے بعد ہمیشہ لوگوں کو سکھانے کی کوشش کی کیونکہ سماجی ترقی صرف اجتماعی سوچ سے ممکن ہے جہاں جس جگہ جس سماج کے لوگ ناخواندہ ہو وہاں نہ تعلیم کو اور نہ ہی تعلیم یافتہ شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں وہ خطہ ہمیشہ جنگوں کی آماجگاہ رہا ہیں، بلوچ اس سرزمین میں صدیوں سے آباد ہے وہ اپنی سرزمین کی دفاع کیلئے صدیوں سے قبضہ گیروں کے خلاف لڑتے ہوئے آرہے ہیں لیکن اب تک بلوچستان میں ترقی ممکن نہیں ہوئی، کیوں نہیں یہ ایک سوال ہے؟ اس سوال کو میں آپ لوگوں پر چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔۔

قبضہ گیر کا ہمیشہ سے یہی کوشش رہا ہے کہ وہ ان محکوم قوموں کو تعلیم سے دور رکھیں تاکہ ان قوموں کو ہمیشہ زیر کریں، قابض کو ہمیشہ محکوم کی سرزمین کے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ان لوگوں کی۔ قبضہ گیروں کا ایک خاصیت یہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ محکوم اقوام کو ان کی تاریخ، ثقافت، ادب اور زبان سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف اس نے ہمیشہ اپنے لوگوں کو ان محکوم قوموں کے بارے میں بے خبر رکھا۔

شاید ہم یہ محسوس نہیں بلکہ دیکھ چُکے ہیں کہ ہماری تاریخ و ثقافت کس طرح مسخ کی جارہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں اسکول، کالج، یونیورسٹیاں نہیں ہے، ہمارے ہزاروں بچے اسکولوں سے باہر کھیل رہے ہیں ہمارے نوجوان نسل کو ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت تعلیم سے دور کیا جارہا ہے اور ان کو منشیات و دیگر سماجی براہیوں میں اُلجھایا جارہا ہے۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود کو تعلیم یافتہ کہہ کر سماج میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں یا ہم نے سماج کیلئے کیا کیا ہے؟ اگر ہم نے سماج کیلئے کچھ نہیں کیا ہے تو اب بھی وقت ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو تعلیم کی طرح متوجہ کریں، تعلیم کی اہمیت ان کو بتائیں۔
اسپلنجی نہیں بلکہ آج پورا بلوچستان اسی آگ میں جل رہا ہے پورے بلوچستان میں اس وقت تعلیمی نظام درہم ہرہم ہوچکی ہے یا تعلیمی نظام کو درہم برہم کردیا گیا ہے، اس وقت اسپلنجی میں شاید کچھ پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولیں ہونگے لیکن وہ فنکشل بھی نہیں ہے اور ابھی ایک کالج بھی بن رہا ہے۔

لہٰذا میں وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر تعلیم بلوچستان اور اپنے علاقے کے تمام تعلیم یافتہ طبقہ کے ساتھ ساتھ علاقے کے معتبرین سے درخواست کرتا ہوں کہ اسپلنجی کیلئے ایک لائبریری قیام میں لائیں تاکہ لوگوں کو کتابوں کی طرف متوجہ کریں اور ان لوگوں کو منشیات جیسے ناسور سے بچائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں