بلوچ کے ساتھ کانگریس، جناح اور برطانیہ نے دھوکہ کیا۔ دل مراد بلوچ

452

بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیراہتمام سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اسپیس پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام سے بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، بی این ایم ڈائپسورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، دانشور اور سینئر ممبر ڈاکٹر ظفر بلوچ، صحافی اور سینئر ممبر قاضی داد محمد ریحان بلوچ نے خطاب کیا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری نے اپنے خطاب میں کہا 27 مارچ متفقہ طور پر بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن کی یاد رکھا جائے گا۔اسی دن پاکستان نے قبضہ کرکے ہماری قومی حیثیت کو ایک کالونی اور ایک مفتوحہ علاقے میں تبدیل کردیا۔

انہوں نے کہا ہماری قومی حیثیت کو کالونی میں بدلنے کے لیے پاکستان اکیلا ذمہ دار نہیں، بلکہ پاکستان، مصلحت پرست ہندوستانی قیادت اور برطانیہ برابر کے شریک ہیں۔ جب میرغوث بخش نے کانگریسی قیادت خصوصا ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم عبدالکلام آزاد سے بلوچستان کی آزادی کے معاملے میں بات کی تو انہوں نے میرصاحب کو صاف جواب دیا کہ بلوچستان آزاد ہوا تو تقسیم ہند سے دو نو آزاد ریاستیں یعنی پاکستان اور ہندوستان کی آزادی دو سپرپاوروں یعنی سوویت روس اور امریکہ کی رسہ کشی سے خطرے میں پڑ جائیں گے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ہمیں کانگریسں کی سیاست سمجھنے کے لیے مولانا عبدالکلام آزاد کو سمجھنا ہوگا۔ مولانا وہ لیڈر تھے جو مذہب کے نام پر ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کرتے رہے۔ انہوں نے پاکستان کے بارے میں جتنے پیش گوئیاں کی تھیں سب کے سب درست ثابت ہوئے۔ لیکن وہ بلوچستان کے بارے میں کوئی واضح موقف پیش نہیں کرسکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ذہانت میں کوئی کمی تھی بلکہ اس کی بنیادی سبب یہ ہے کہ بلوچستان کبھی برصغیر کا حصہ نہیں رہا ہے۔ ہماری تہذیب نو ہزار سال قبل مہرگڑھ سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری نفسیات، ہماری قومی اقدار سمیت ہائے زندگی برصغیر کے قوموں کی اقدار و روایات سے یکسر مختلف ہیں۔ اس لیے نہ تو کانگریس کو بلوچستان کی آزادی سے کوئی دلچسپی تھی نہ ہی وہ چاہتے کہ بلوچستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت اختیار کرے۔ کانگریس بلوچستان کی آزادی کو کیا سپورٹ کرتا، وہ تو انگریز کے ابھارے گئے مذہبی جنونیت کے رو میں اپنی ملک کو تقسیم سے نہیں بچا سکے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں مولانا آزاد کے تحریر اور تقریروں اور پیش گوئیوں میں بلوچستان کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ ایک ملک یا خطہ کو آپ اپنے سے کسی بھی رشتے کے حوالے سے قریب تر محسوس نہیں کرتے ہوں تو اس کے لیے کیوں دلچسپی لیں۔

انہوں نے کہا بلاشبہ بلوچستان کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ محمدعلی جناح نے کیا۔ اس سے بڑھ دھوکہ کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ بلوچ ریاست نے انگریز کو اجارہ پر دیئے اپنے علاقے نصیرآباد، چاغی، جعفرآباد، کوئٹہ یعنی برٹش بلوچستان کی انگریز سے واپسی کے لیے محمد جناح کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا۔ وہ باقاعدہ فیس لے کر “پریوی کونسل” میں بلوچستان کا مقدمہ لڑرہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تحریک پاکستان کے لیے مسلم لیگ کے لیے محمد علی اور اس کی بہن کو سونے اور چاندی میں تول کر فنڈ دے دی۔ لیکن یہی تنخواہ دار محمد علی جناح بلوچستان پر قبضہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، سوال یہ ہے کہ بلوچ قوم نے پاکستانی قبضے کے سامنے سرجھکا لیا تھا یا نہیں۔ تاریخ بتاتا ہے کہ بلوچ نے باقاعدہ فوج اور دیگر ریاستی نظام نہ ہونے کے باوجود قومی حیثیت میں اس جارحیت کو چیلنج کیا۔ مکران کے گورنر آغا عبدالکریم نے بلوچ قومی مزاحمت کا آغاز کیا۔ لیکن ادارہ اور وسائل کی کمی، اور سرداروں کی پاکستانی باجگزاری کی وجہ سے ہمارا پہلا مزاحمت کامیاب تو نہ ہوسکا لیکن اس مزاحمت نے بلوچ قومی مزاحمت کو ایک بنیاد فراہم کیا۔ اس کے بعد مزاحمت کے کئی دور آئے لیکن جدوجہد کو ایک تسلسل نہیں مل سکا۔ اگر وہ مزاحمت نہ ہوتے تو شائد موجودہ مزاحمت بھی اس شکل میں ممکن نہ ہو پاتا۔ موجودہ جدوجہد کی جڑیں سابقہ مزاحمتی تاریخ میں پیوست ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا اس مقام پر ہمیں تحریک کی ماضی کی ناکامیوں اور موجودہ کامیابی اور تسلسل کی وجوہات پر سوچنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں تحریک کی تسلسل برقرار نہ رہنے کی بنیادی وجہ تحریک کا شخصی اور قبائلی ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے جو اتنے طویل دورانیئے میں ہمیں حاصل کرنا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا موجودہ تحریک کی بیس سالہ تسلسل بلوچ قومی تاریخ کا ایک نمایاں کامیابی ہے۔ہم اس کا کریڈٹ ان رہنماؤں کو دیتے ہیں جنہوں نے جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق، جدوجہد کو ادارتی شکل دی اور بڑی شان کے ساتھ اس سچائی کہ “بلوچ قومی نجات ادارتی سیاست میں ہے” کے لیے اپنے سر قربان کیے۔ تاریخ کے اس مرحلے پر بلوچ قوم نے ادارتی سیاست کے نقطہ نظر کو اہمیت دی ہے۔ پاکستان کی تمام تر جنگی جرائم کے باجود بلوچ قوم اس نیت اور یقین کے ساتھ جدوجہد کی ہمراہ داری کررہی ہے کہ ادارتی سیاست، پارٹی اور تنظیم جدوجہد کو منزل تک پہنچائیں گے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ایک طرف ہم بیس سالہ تسلسل کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب اس کامیابی کے لیے بلوچ قوم نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔ یہ بیس سال پاکستانی جبر، سفاکیت، بربریت، حیوانیت اور جنگی جرائم کے سال ہیں۔ لیکن یہ جبر بلوچ کو شکست نہیں دے سکاؤ۔

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادارتی نقطہ نظر، پارٹی اہمیت کی ادراک کو ریاست تمام جنگی جرائم کے باجود شکست نہیں دے سکا ہے۔ قوم کی امیدیں اداروں سے وابستہ ہیں۔ ،ہمیں بیس سالہ پارٹی اہمیت کی سچائی کے تجربے کے پیش نظر نئی حکمت عملی، اور ادارتی رویوں کی تعمیر کے لیے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ مزید محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس بار ناکام ہوئے تو ہمیں نہ دشمن معاف کرے گا نہ تاریخ اور نہ ہی بلوچ قوم ۔