ریکوڈک معاہدہ: بلوچ قوم پرستوں اور حکومت کا موقف

728

بلوچستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے منصوبے ریکوڈک پر نئے معاہدے کے بعد بلوچ قوم پرست مسلح تنظیموں کا موقف اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آنے کے بعد گذشتہ دنوں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کے نئے معاہدے میں سردار اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور دیگر سیاسی قائدین کو اعتماد میں لیا گیا ہے –

تاہم قدوس بزنجو کے بیان کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے ان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔

نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت ریکوڈک کے نئے معاہدے کو عوام کے سامنے لاکر پیش کرے-

اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے نیشنل پارٹی کے رہنماء نے قدوس بزنجو کی بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلٰی بلوچستان کے بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے، ریکوڈیک معاہدے کی کسی مشاورت میں نہ شامل تھے اور نہ ہی اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔

دوسری جانب بی این پی مینگل نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو 50 فیصد ملنا چاہیے۔ تاہم قدوس بزنجو کی اس بیان پر ابتک انکا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مطابق ان کے سرابرہ اختر مینگل نے قدوس بزنجو سے ملاقات میں تمام خدشات سامنے رکھتے ہوئے ریکوڈک معاہدہ قبول نہیں، پارٹی بیان کے مطابق حق ملکیت چاہتے ہیں خیرات نہیں، 25 فیصد جام حکومت کی پالیسی ہے جسکو مسترد کرچکے ہیں۔

بلوچستان کے سینئر سیاستدان نواب حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ قدوس کو لانے والوں نے ریکوڈک کا سودا کیا ہے۔

بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ قدوس بزنجو حکومت کو کوئی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ریکوڈک معاہدہ پر اخباری بیانات سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے تاہم گذشتہ دنوں بلوچستان میں سرگرم مسلح آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر [براس] نے بیان جاری کرتے ہوئے کینڈین کمپنی کو خبردار کیا کہ وہ بلوچستان میں وسائل کی لوٹ مار اور ریکوڈک سے دور رہیں –

براس ترجمان بلوچ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک مقبوضہ ریاست ہے، جہاں حقیقی بلوچ قیادت کے بجائے قابض پاکستان کی چنندہ ایک کٹھ پتلی حکومت بٹھائی گئی ہے تاکہ قابض کی توسیع پسندانہ و استحصالی عزائم کو ایک نام نہاد قانونی شکل دیکر تقویت دی جاسکے۔ ان تاریخی و معروضی حقائق کو نظر انداز کرکے بیرک گولڈ کارپوریشن کا بلوچ سرزمین پر قابض قوت اور اسکے کٹھ پتلیوں سے معاہدہ اس امر کا اظہار ہے کہ مذکورہ کمپنی بلوچ رائے عامہ اور بلوچوں کی تاریخی حق ملکیت کا احترام کرنے کے بجائے، جارح قوت سے ساز باز کرکے بلوچ وسائل کا پونے داموں لوٹ مار پر تلا ہوا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد براس کے جاری کردہ بیان تجزیہ نگار حکومت اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے باعث پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے شدید حملوں کا سامنا رہا ہے۔ 2018 اگست کو ضلع چاغی میں چینی ملازمین پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ایک فدائی حملے کے بعد ابتک حکومت کو ان علاقوں میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

خیال رہے کہ ریکوڈک کو رواں ماہ کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے حوالے کیا گیا تھا۔ حکومت کا موقف ہے کہ ریکوڈک کے پچیس فیصد بلوچستان کو ملینگے جبکہ پچیس فیصد مرکزی حکومت اور دیگر پچاس فیصد سرمایہ کاروں کی ہوگی۔