میرے گھر سے منسلک پرائمری سکول ۔ مولانا منور مہر تُمپی

442

میرے گھر سے منسلک پرائمری سکول

تحریر: مولانا منور مہر تُمپی

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ روز اچانک کسی کام کے سلسلے میں میرا گذر میرے گھر کے سامنے والے پرائمری سکول سے ہوا، وہاں پر موجود اُستاد سے میری ملاقات ہوئی جس سے میرا پُرانا جان پہچان ہے کیونکہ میرے والد صاحب بھی کسی دور میں اسی سکول کے اُستاد رہے ہیں اور میرے والد صاحب کے ساتھی اساتذہ میں سے ایک استاد یہ بھی تھے جو اب تک اسی پرائمری سکول میں ڈیوٹی سرانجام دے رہیں تھے۔
جب میں نے سکول کی موجودہ حالت دیکھی تو مجھے بڑا تعجب ہوا، یقین جانیں کچھ دیر کے لیے میں بہت گہری سوچ میں پڑگیا وہ اس لیے کہ ایک دور اسی سکول سے میں نے اپنے تعلیم کا آغاز کیا تھا اور اُس دور میں تمپ کا مشہور ترین پرائمری اسکولوں میں اس سکول کا شمار ہوتا تھا کیونکہ یہ سکول اپنے تعلیمی اعتبار سے بہت مقبول تھی۔

جس وقت ھم پڑھ رہے تھے اس سکول میں تعلیمی تمام بنیادی ضرورتیں میسر تھیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سب سے بنیادی چیز اور ضرورت اساتذہ کا ہے جو کہ اُس وقت تقریباً ہم 6 اساتذہ سے تدریس حاصل کررہے تھے اور ہمارے اساتذہ بلکل ایمانداری اور پابندی کے ساتھ اپنے ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اُس وقت سکول کے باقی اکثر و بیشتر ضرورتیں میسر تھے۔

کہتے ہیں کہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ دن بہ دن ترقی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے بلوچستان میں ہم دن بہ دن پیچھے جارہے ہیں اس کی وجہ اور کچھ نہیں سوائے اسکے کہ ہمارے ساتھ ہر لحاظ سے بے توجّہی ہورہی ہے۔ شاید ہمارے حکمران یہ نہیں چاہتے کہ بلوچ اور بلوچستان کے لوگ بھی اچھی تعلیم حاصل کرسکیں۔ آج جب میں نے اپنے علاقے کی اس سکول کی حالت کو دیکھا تو مجھے رونا آیا کیونکہ اس پرائمری سکول میں پڑھنے کے لیے طالب علم تو تھے لیکن پڑھانے والے اساتذہ اور باقی دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر تھے جیسا کہ بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور کرسیاں، پڑھنے پڑھانے کے لیے بلیک بورڈ اور کتابیں بھی ناقص تھے۔

باقی تعمیری حوالے سے سکول کامل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، مرکزی گیٹ اپنی جگہ سے غائب تھی گویا کہ یہاں کبھی کوئی دروازہ تھا ہی نہیں بلکہ علاقے کے منشیات کے عادی لوگوں کا ٹھکانہ نظر آرہا تھا اور سکول کے واش رومز بلکل کچھرے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے۔
یہاں نا کہ ذمہ داران سکول کی فکر میں ہیں اور نہ کہ کلسٹرز کے جو پیسے آتے ہیں وہ تعمیراتی کام پہ خرچ کیے جارہے ہیں، یہ حالت ہے ہمارے تُمپ کے مرکزی پرائمری سکول کا جو ایک وقت علاقے کا بہترین اور ٹاپ ترین سکول تھا۔ اس کے علاوہ جب میں نے اُس اکیلے استاد سے پوچھا کہ اس سکول میں آپ لوگ کتنے اساتذہ پڑھا رہے ہیں تو اُس نے جو جواب دیا مجھے حیرت ہوئی۔۔

اُس نے کہا کہ تقریباً پانچ سال سے میں اکیلا اس سکول کو چلا رہا ہوں اور اُس نے یہ بھی کہا کہ میں یہاں کے ذمہ داران سے ملا بھی ہوں اور اُنہیں سکول کے حالات سے آگاہ بھی کیا ہے اور اُن سے مزید اساتذہ لانے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے لیکن مجھے اُن لوگوں کی طرف سے کوئی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملی ہے۔

علاقے کی تمام لوگوں کا ڈی سی اور اے سی صاحب جناب صادق کبدانی سے التجاہ ہے کہ وہ ایک دن آئیں اور سکول کا دورہ کریں اور سکول کی حالت پہ رحم کریں تاکہ علاقے کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہو کیونکہ قوم کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے اور اچھی تعلیم اُس وقت ممکن ہوگی جب سکول کا نظام بہتر ہوگا اور تعلیم سے منسلک تمام ضرورتیں پوری ہونگیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں