لاپتہ ۔ درناز رحیم بلوچ

611

لاپتہ

تحریر: درناز رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک دو تین ۔۔۔ تین سیڑھیاں ہی تھیں۔ تین سیڑھیاں چڑھ کر اب اسے سیدھا لے جایا جا رہا تھا۔ دونوں اطراف سے اسکے بازو سختی سے پکڑے دو لوگ تقریباً اسے گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے۔ جن میں سے ایک خاموش تھا اور دوسرا مسلسل گالیاں بک رہا تھا۔ یہ کوئی راہداری معلوم ہوتی تھی۔ چونکہ اسکی آنکھوں پہ پٹی تھی تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
چند قدم چلنے کے بعد اسکا بایاں ہاتھ پکڑے ایک فوجی دھاڑ کر بولا ” جلدی کھولو”۔
کسی آہنی دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔ اسکا دایاں ہاتھ پکڑے فوجی نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ اسکی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول رہا تھا۔ پٹی کھولتے ہی دایاں ہاتھ پکڑے فوجی نے اسے کسی تنگ سیل میں دھکیل دیا۔

اسکا دماغ سن اور زہن بالکل مفلوج تھا۔ نا کچھ سمجھ آ رہا تھا اور نا ہی کچھ سوچنے کی سکت تھی۔ چاروں اطراف نظر گھما کر دیکھا تو بس ایک روشن دان دکھائی دیا، جہاں آہنی سلاخ اور جالی لگی ہوئی تھی، جس سے ہلکی سی روشنی چھن کر آ رہی تھی۔ نا کوئی بلب نا کوئی اور شے۔ امید کی کوئی کرن کہیں نہیں تھی۔ سیل کی لمبائی اتنی تھی کہ بس ٹانگیں پھیلائی جا سکے اور چوڑائی اتنی کہ دو لوگ جڑ کر بیٹھ سکیں۔
اس نے پیٹھ دیوار سے لگا کر بیٹھنے کی سعی کی۔ اب بس کچھ اور دیکھنے کی خواہش نہیں تھی، سو اسنے آنکھوں کے پردے گرا دیئے۔ نا امیدی سی نا امیدی تھی۔ کیا ہوگا اب ؟ کیا گرینگے یہ میرے ساتھ ؟ کیا میں کبھی یہاں سے نکل پاونگا ؟ کیا اب سب ختم ہو جائیگا ؟ کیا میری مسخ شدہ لاش ہی یہاں سے باہر جا پائیگی؟ میرا بچہ، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا، کیا وہ کبھی اپنے باپ کی شکل بھی دیکھ پائیگا؟ افف خدایا۔۔۔ میری ماں ؟ اسنے آنکھیں سختی سے میچ لئے گویا ماں کے خیال سے اسکا دل کسی نے مٹھی میں بند کر لیا۔ میری بیوی ؟۔۔۔۔ اور بیوی کے خیال سے اسنے جھٹ سے آنکھیں کھول لئے۔ کیا ہوگا اسکا ؟ وہ لڑکی جسے میں سات مہینے پہلے بہا کے لایا تھا ؟ مجھے کچھ ہو گیا تو اسکا کیا ہوگا ؟ مجھے کچھ نا ہو مگر میری گمشدگی ۔۔۔۔ او خدا ۔۔۔۔ اسنے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیئے کیا کرے ، کیا نا کرے ، کیا سوچے ، کیا نہ سوچے۔ ذہن میں تکلیف دہ خیالات کا ایک دھماکا سا ہو رہا تھا ۔ایک کے بعد ایک دھماکا۔

اس نے بمشکل خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ سوائے اچھے امید کے میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ کچھ نہیں ہوگا میرے ساتھ۔ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ میں یہاں سے نکل جاونگا۔ میں بازیاب ہو جاؤنگا۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں بے قصور ہوں۔ مگر ۔۔۔ کیا میرا بے قصور ہونا میری بازیابی کے لئے کافی ہے؟ میرا بے قصور ہونا کافی ہے تو میں یہاں کیوں لایا گیا ہوں؟ نہیں نہیں۔۔۔ اسنے سر جھٹک کر سارے خیالات زہن سے اتارنے کی کوشش کی۔ مگر واہمات، سوالات اور خوف کی ایک لہر اس وقت اسکے زہن پر طاری تھی۔ کچھ نہیں ہوگا۔ بس۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ اسنے ٹانگوں کے گرد ہاتھوں کا گھیربنا لیا اور سر گھٹنوں سے لگا لیا۔ وہ ہر حال میں امید کا دامن تھامے رکھنا چاہتا تھا۔

نا جانے کتنا وقت یوں ہی گزر گیا۔ وہ یوں ہی اپنے زہن میں ابھرنے والے خیالات سے لڑتا رہا خود کو تسلیاں دیتا رہا۔ اب دیوار سے پیٹھ لگائے، ایک ٹانگ دراز اور دوسرا ہلکا سا موڑے وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائیں کیا کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔

آہنی دروازے کے کھلنے کی آواز سے اسکے خیالوں کی ڈور ٹوٹی۔ اسنے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی۔ مگر ٹانگ کی چوٹ سے اٹھنے والا درد۔۔۔ افففف۔ دو لوگ اندر داخل ہوئے فوجی وردی میں ملبوس چہروں پر ملک الموت کا سایا، اور کاندھوں پر بندوق۔ ایک کے ہاتھ میں سیاہ پٹی تھی جو اسکی طرف بڑھا۔

” ہمارے ساتھ چلو۔۔۔ صاحب لوگ پوچھ تاج کرنے والے ہیں تم سے ۔۔۔ مڑو اب ۔۔۔ یہ پٹی باندھ کر تمہیں لیکر جائینگے؟”
اتنا تو اسے اندازہ تھا۔۔۔ بلکہ یقین تھا کہ اسے یہاں لیکر آنے والے کون ہیں اور یہ کہ اب باہر کی دنیا کے لئے وہ ایک لاپتہ شخص تھا۔ وہ مڑ گیا کوئی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اب شاید اسکے خاندان کے لئے احتجاج کرنا روز کا معمول بن جائے گا۔ کچھ لوگ فرض سمجھ کر اسکے لئے آواز اٹھائینگے اور کچھ دکھاوے کے لئے لاپتہ اور نا معلوم کا رونا روئینگے۔ جیسے انہیں پتا ہی نہ ہو کہ لاپتہ کرنے والے ہیں کون۔ یا پھر شاید خوف کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر والے خاموش ہو جائینگے۔ شاید اسکا اپنا خاندان بھی آواز اٹھانے سے ڈر جائے گا۔ زمینی خداؤں سے لڑنے کے بجائے وہ آسمانی خدا کو پکارینگے۔ وظیفوں کا ورد ہوگا، خیراتیں بانٹی جائینگی، سر سجدوں میں پڑے ہونگے۔ ہمدردی کرنے رشتے دار گھر جائینگے افسوس کرینگے مگر اسکے لئے لڑنے والے بہت کم ہونگے یا شاید کوئی بھی نہیں ہوگا۔ اس وقت وہ ایک قیدی تھا اور لاپتہ تھا۔ وہ زندہ بچ جائیگا یا مسخ کر کے کہیں پھینک دیا جائیگا اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسکی زندگی کا فیصلہ اب ان زمینی خداوں کے ہاتھ میں تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں