ہنکین – مہر میر

344

ہنکین
مہر میر

ہم سردار کی کبابی (سردار کی سجی کیلئے بکرا) لیکر خلق سے نکلے ۔میں بکرے کے گلے میں خیر ی ڈالے بابا کے پیچھے ہو لیا ۔آج سردارکے مہمان آرہے تھے شہر سے۔۔ بابا انکے لئے بکرا لئے سردار کے وتاخ جارہے تھے ۔مجھے بھی ہمراہ لئے بابا نے کہا کہ سردار کے مہمان آرہے ہیں بندوں کی ضرورت ہوگی ۔

میں بھی روز روز بزگل کے ساتھ ہوکر اکتا گیا تھا آج ایک طرف بزگل سے جان چھوٹی تھی دوسری طرف سردار کے ہاں جاکر لوگوں سے ملنے کی خواہش اور خوشی کے باعث میں بابا کے پیچھے جیسے دوڑے جارہا تھا ۔۔راستے میں بابا کے پیچھے جاتے ہم خیرو کے ہنکین (ہنکین ، کسی خلق کی منتقلی کے بعد وہ جگہ جہاں گدان ہو ا کرتے تھے) کے قریب سے گزرے تو بابا نے کہا نودان جب بھی کسی ہنکین کے قریب سے گزرو تو کبھی اس ہنکین پر اپنے چوٹ (جوتوں)کے ساتھ نہیں چلنا۔۔

میں نے پوچھا کیوں بابا ۔۔

تو بابا نے کہا میرا بیٹا ہنکین ہمارے خلق کی مانند ہمارے لئے مقد س ہوتے ہیں ہم کسی کے خلق کو عبادت گاہ کا درجہ دیتے ہیں کسی کا خلق اسکی عزت و ننگ کامحافظ و قلعہ ہوتاہے ۔۔۔بلوچ عظیم ہیرو اور قومی تشکیل کے بانی خان میر نوری نصیر خان جس نے ہمیں باقاعدہ منظم قوم کی صورت دی انکی یہ روایت و عادت تھی کہ وہ کسی بھی ہنکین پر جوتوں کے ساتھ نہیں جاتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ جوتوں سمیت کسی کے ہنکین پر چلنا ایسا ہے جیسے اسکی خلق میں گدان کے اندر جوتوں سمیت داخل ہوجاﺅ ۔گدان کے اندر یا ٹپر اور کونٹ پر جوتوں سمیت جاکر بیٹھ جانا روایت اور اسکے تقدس کو پامال کرنے جیسا ہے ۔۔۔

بیٹا خلق ہمارے وہ گھونسلے ہیں جن کی تقد س و حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کرتے ہیں اور اسی طرح دوسروں کے خلق کو بھی عزت و تکریم دینا ہمارا شیوو اور فرض ہوتاہے ۔۔۔یہ ہماری روایت اور غیرت کیخلاف ہے کہ ہم دوسروں کی خلق کے تقدس کا احترام نہ کریں ۔۔جب کبھی کسی کے خلق جاﺅ تو دور سے آواز دو تاکہ خلق میں موجو د لوگ سنھبل سکیں اور تمہاری آمد کا انکو خبر ہو تب تک آگے نہ بڑھو جب کہ وہ آپ کو بخیر کہنے آگے نہ آئیں ۔اس سے انکی خلق کی اپنی تمام راز داری برقرار رہے گی اور انکے خلق کاعزت و تکریم رہے گا ۔۔

خلق کی عزت و تقدس کی انتہاءدرجے تک خیا ل رکھنے کے باعث ہنکین کی بھی عزت کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی ہے ۔۔میر نوری نصیر خان اسی لئے خو دکسی کے ہنکین پر جوتوں کے ساتھ نہیں چلتے تھے تاکہ میر ی قوم خلق کی تقد س کی انتہاءکو سمجھ کر اس روایت کی پاسداری کرے ۔۔۔ بیٹا خلق ہمارے قلعے کی مانند ہوتے ہیں جب کوئی ہمارے خلق میں آکر پناہ مانگتا ہے چاہے وہ ہماری دشمن ہی کیوں نہ ہو ہم اسے جان پر کھیل کر پناہ دیتے ہیں ۔۔۔باہوٹ کی ہماری روایت ہمارے اقدار کی شاندار مثال ہے ۔۔۔۔بیٹا خان قلات سے لیکر ہمارے نواب سردار ہمارے ان روایات کے امین ہوتے ہیں ۔۔وہ ان روایات کی پاسداری عام لوگوں سے زیادہ کرتے ہیں ۔۔۔

بابا چونکہ قبائلی نظام میں پلڑے بڑے تھے تو قبائلیت کا احترام کرتے تھے بہت ۔۔۔سرداروں کا احترام کرتے تھے ۔۔بابا مجھے پنت و نصیحت کرتے لے جا رہے تھے ۔۔بابا میرا سکول اور میرے رہنماءتھے ۔وہ ہر چیز مجھے سکھاتے اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر پرورش پا رہا تھا ۔۔۔

میں نے بابا سے پوچھا ۔۔بابا آپ نے یہ سب باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں ؟بابا نے ہنس کر کہا بیٹایہ باتیں ہمیں ہمارے بزرگ کہتے ہیں ہم ان سے سیکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو اور آنیوالی نسلوں کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں ۔۔بابا نے کہا کہ میں آج تمہیں اسی لیے سردار کے وتاخ لے جارہا ہوں تاکہ تم وہاں دیکھوں کہ ہماری روایات کیا ہیں ۔۔۔لوگوں سے ملو ۔۔ایسے محفل ہماری سماج اور اقدار کی عکس اور عملی نمونہ ہو ا کرتی ہیں ۔۔

میر ا تصور ایسے بنتا جارہا تھاجیسے کہ میں کسی بڑے درس گاہ جا رہاہوں یا پھر اپنی تہذیب کی مرکز و قبلہ کی زیارت کرنے جارہا ہوں ۔۔۔

راستے میں چلتے بابا کے کہے الفاظ کے بعد تو میری سردار اور انکی محفل کو دیکھنے کی چاہت اور بڑھ گئی ۔۔۔۔سردار کا تصور میرے زہن میں ایسے تھا جیسے کہ وہ معاشرے اور سماج کا وہ شخص یاکردارہو جو کہ تمام صفات کا حامل ہماری روایات ہماری اقدار کا امین سمیت ہمارے تہذیب کا عکس ہو نگہبان ہو ۔۔۔میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ سردارکے خلق پہنچ گئے ۔۔

قلعہ نما گھر باہر کھڑے سلحہ بند نوجوان اور دوسری جانب ٹولیوں میں موجود سہمے سے لوگ ۔۔۔۔گھر میں داخلے سے قبل سفید ریش بزرگوں کی اپنی ساد ہ مگر صاف لباس کو ترتیب دینے جیسے معصوم حرکتوں سے مجھ پر سردار کا رعب وجاہ جلال اور زیادہ بڑھ گیا ۔۔میں سوچ رہا تھا کہ آخر کونسی ایسی بات ہے جو اس قدر تعظیم کا باعث ہے ۔۔۔پھر میرے زہن میں بابا کے وہ الفاظ آئے کہ سردار ہمارا رہنماءاور قبیلے کا سب سے بڑا معتبر باعزت اور ہماری روایات کا امین وتہذیب کا نمائندہ ومحافظ ہوتا ہے۔۔۔

میر ے زہن میں سردار کا تصور ایک ایسے شخص کے طور پر ابھر ا جو انسانی صفات اور انسانی تعریف سے کہیں زیادہ بالا تھا ۔۔۔

میں جو پہلی دفعہ سردار کی وتاخ پر آیا تھا سہما سا تھا اور زیادہ خوفزدہ سا ہوا ۔۔ڈر تھاکہ کہیں کوئی غلطی سر زد نہ ہو ۔۔۔کیونکہ بابا کو اکثر کہتے سنا تھا کہ سردار نے فلاں شخص کو فلاں فیصلے میں ملامت کرکے اسے جرمانہ کیا تھا ۔۔۔میں تو اپنی ثقافت اپنی تمدن اپنے اقدار کے مرکز اور تہذیب کی یکجا عملی نمونہ دیکھنے آیاتھا ۔۔

میں سلحہ بند لوگوں کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ کتنے ہی بہادر اور صاف لوگ ہیں جنہیں سردار نے اپنے قلعے اور اپنی حفاظت پر مامور کررکھا ہے ۔۔ یہ سردار کے قریبی لوگ ہیں تو سردار کے بعد انکی بہت اہمیت ہوگی ۔۔میں انہیں ڈر اور چاہت کی نظر وں سے دیکھ رہا تھا ۔۔

بابا نے قلعہ نما گھر کے بڑے دروازے پرسلام کہا اور اندر چل دئیے میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا ۔۔اندر داخل ہوئے تو وہاں کھڑے ایک سفید ریش جو کچھ نوجوانوں کو ہدایت دے رہے تھے مختلف کام اور انتظامات کے حوالے سے ۔۔مجھے گمان گزرا کہ یہی سردار ہونگے میں انہیں دیکھے جارہا تھا ۔۔کہ بابا نے قریب پہنچ کر انہیں بلند آواز میں سلام کہا تو وہ آگے بڑھے اور بابا کو گلے لگا یا میں بابا کے پیچھے کھڑے اس انتظار میں تھا کہ سردار سے ہاتھ ملانے کی میری باری کب آئے گی۔۔۔

بابا سے گلے ملنے کہ بعد وہ سفید ریش میری جانب دیکھا اور ہاتھ بڑھایا میں نے جلد ی جلدی ان سے ہاتھ ملایا انہوں نے بابا سے حال احوال پوچھا ۔میں بکرے کو تھامے کھڑا تھا انہوں نے پاس کھڑے نوجوان سے کہا کہ وہ مجھ سے بکرا لیکر وہاں زبح کرنیوالوں کو دید یں ۔۔بابا ان سے ہنس ہنس کرباتیں کررہا تھا۔۔بابا نے جب ان سے سردار کے بارے میں پوچھاتو میر ا گمان ٹوٹ گیا کہ یہ سردار ہے ۔۔۔۔۔

توڑی دیر بات چیت کے بعدبابا نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ نودان چلو۔ ہم آگے کی جانب بڑھ چلے۔۔ میں سردار کے گھر کی وسعت اور اس کے عالیشان مناظر دیکھ رہا تھا۔ ۔میں نے دیکھا کہ دوسری جانب ایک بڑی سی سبزہ زار پر بہت ساری دریاں بچھی ہوئی تھیں ۔وہاں بہت سارے لوگ بیٹھے تھے ۔۔بابا انکی جانب بڑھ رہے تھے۔

میں بابا کے پیچھے پیچھے سہما سا خیری کو دانتو ں میں دبائے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔ ۔۔ہم سبزہ زار کے قریب پہنچے تو بابا اپنے چوٹ اتارنے لگا۔۔ میں حیرا ن تھا کہ ابھی تک تو ہم جہاں دریاں بچھی ہوئی تھیں وہاں سے دور ہی تھے تو بابا کیوں چوٹ اتار رہے ہیں میں بھی جلد جلدی چوٹ اتارنے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں ۔۔

اور ساتھ ہی سرگوشی میں بابا سے پوچھا کہ بابا دریاں تو ابھی تک دور ہیں چوٹ یہاں کیوں اتار رہے ہیں ۔تو بابا نے کہا کہ بیٹا سردار کا یہ سبزہ زار خرا ب ہوگا یہ بھی دریوں جیسا ہی ہے ۔۔میں اس گھاس کو دیکھ رہا تھا جس طرح کی گھاس کو روز میں بکریوں کو چراتے وقت چوٹ کے نیچھے روندتا تھا ۔۔

میں سوچ رہا تھا کہ سردار کے ساتھ ساتھ انکی گھر کی گھاس بھی کتنا ہی قابل احترام ہے ۔۔ہم اپنے چوٹ وہاں لگے پھولوں کے ساتھ رکھ کر ننگے پاﺅں دریوں کی جانب بڑھنے لگے ۔۔

وہاں کئی لوگ صاف سفید کپڑوں کے ساتھ دریوں پررکھےتکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔۔بابا نے قریب پہنچ کر بلند آوا ز میں سلام کہا ۔۔میری نظر یں سردار کو ڈھونڈرہی تھیں ۔۔وہاں بیٹھے بعض لوگوں نے بابا کے سلام کا جواب دیا ۔۔

میں بابا کے پیچھے پیچھے جارہا تھا میں نے دیکھا بابا آگے بڑھے اس محفل میں بیٹھے ایک شخص جونئے سفید کپڑوں میں ملبوس چار زانوں ڈالے بیٹھے اپنے ساتھ بیٹھے ایک شخص کی باتوں کوسن رہے تھے ۔۔انکے پیچھے دو سلحہ بند نوجوان انتہائی چوکس کھڑے تھے ۔۔مجھے یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو سردار یہی ہونگے ۔۔ وہ بابا کی اپنی طرف آمد سے بے خبر گفتگو میں مصروف دکھائی دے رہے تھے ۔۔

بابا نے چند قدم کے فاصلے پر پہنچ کر کہا سردار صاحب سلام والیک ۔۔۔اور اسکے ساتھ ہی بابا نے اپنے ہاتھ اپنے خیر میں لپیٹ کر سردار کی طر ف جھک کر ان سے ہاتھ ملانے لگے ۔۔۔

خیر ی میں ہاتھ اس لئے بابا نے لپیٹا کہ شاید انکے محنت کش اور پسماندہ ہاتھوں کی سختی سردار کو محسوس نہ ہو ۔۔۔۔

سردار جو محو گفتگو تھے انہیں زرابرابرا بھی بابا کی آمد نے متاثر نہ کیا وہ بابا کی جانب اپنی منڈی توڑی گمائی اور ایک ہاتھ بڑھا کر بابا سے ہاتھ ملایا ۔۔میں بھی بابا کے پیچھے کھڑے اس انتظار میں تھا کہ سردار سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہوگا ۔۔بابا ہاتھ ملانے کے بعد جھکے جھکے سردار سے حال احوال کرنے لگا مگر سردار جو اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے گفتگو کررہے تھے اسی کی جانب توجہ مرکوزکئے رکھااور بابا کو نظر اندا ز کرگئے ۔۔

میں بابا کے پیچھے ہٹنے کاانتظار کررہا تھا تاکہ میں بھی سردار سے ہاتھ ملاسکوں ۔۔مگر بابا جیسے مجھے بھول گئے کہ میں بھی انکے پیچھے سردار سے ہاتھ ملانے کیلئے بےتاب کھڑا ہوں ۔۔۔

بابا کی طرف سردار کی عدم توجہی کو دیکھ کر انکے پیچھے کھڑے انکا ایک سلحہ بند محافظ آگے بڑھا اور بابا کو اپنی آنکھوں ہی آنکھوں میں سختی سے جانے کا اشار ہ کرنے لگے ۔۔میں ڈر گیا اور اس قدر خوفزدہ ہوا کہ میں کاپنے لگا کہ شاید بابا نہ کوئی غلطی کی ہے جس پر وہ سلحہ بند اسے جانے کو کہہ رہے ہیں ۔۔بابا فورا واپسی کے لئے موڑے اور مجھے اشارہ کیا چلو نودان ۔۔

میں خوف کے مارے سردار سے ہاتھ ملانا ہی بھول گیااور بابا کے پیچھے ہو لیا ۔۔میں حیر ان تھا کہ آخربابا سے کہاں بھول ہوگئی ۔۔بابا اور میں آکر باقی بیٹھے لوگوں کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ گئے ۔۔میں بابا کے ساتھ ایک طرف دری کے ساتھ بیٹھ کر بابا کو دیکھ رہا تھا اور ایک نظر سے اس محافظ کو ۔۔۔بابا نے بیٹھ کراپنے ساتھ بیٹھے ایک شخص جو شاید بابا کو جانتا تھا اس سے بات کرنے لگے ۔۔

مجھے بابا کی پیشانی پر پریشانی اور کچھ غصے کے اثار دکھ رہے تھے مگر بابا اس غصے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرکے اپنے پاس بیٹھے اس شخص کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگیا ۔۔

میں توڑی دیر سنبھلنے کے بعد سردار اور اس محافظ پر نظر ے گاڑے دیکھ رہا تھا ۔۔۔مجھے کچھ ایسا لگا کہ جس سلحہ بند محافظ نے بابا کو سختی سے جانےکا اشارہ کیا وہ کوئی جانا پہچانا سا ہے ۔۔شاید اسے کہیں میں نے دیکھا تھا ۔۔میں اس گومگو میں تھا کہ اچانک یا د آیا کہ یہ تو خیرو ہے جو پچھلے سال مامد اکرم کے بزگل سے بکرا چوری کرتے پکڑے گئے تھے ۔یہ تو ہمارے خلق کا بدنام چور تھا ۔۔۔۔پہچان میں دیر شاید اس لئے ہوگئی کہ خیرو کا لباس اور یہاں اسے ملامقام اسکی اپنے کردار سے کہیں زیادہ مختلف اور متضاد تھا ۔۔۔

میں تو جیسے ششدر ہوکررہ گیا ۔۔کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔۔ایک چور کا سردارکا سلحہ بند محافظ بننا کیسے ممکن ہے ۔۔

چور کا تو کوئی والی وارث نہیں ہوتا ۔۔اور اسکی سخت سز ا مقرر ہے ۔۔اور دوسری جانب سردارتو ہماری تمام روایات کا امین اور محافظ سمیت انکو لاگو کرنے کا اختیار دار ہوتا ہے وہ کیسے کسی چور کو اپنے اس قدر قریبی اور بااعتماد مقام دے سکتا ہے ۔۔۔

میں سوچوں میں گم تھا ۔۔کہ ایک شخص آیا اور سردار سے دیمی انداز میں کچھ کہنے لگا اسکے بعد ایک دم سے جیسے یہاں بیٹھے سردار سمیت سب لوگوں میں ایک بگدڑ سی کیفیت ہوگئی ۔۔سردار کھڑے ہوگئے تو سب اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔۔۔میں بھی سہم سا گیا ۔۔یا اللہ خیر ہو کیا ایسا ہوا کہ سردار بھی اس قد رجلدی اٹھے اور روانہ ہوئے ۔۔میں نے دیکھا کہ سب سردار کے وتاخ کے بڑے دروازے کی جانب دیکھ رہے ہیں ایسے میں بڑا دروازہ کھلا اور بڑی بڑی گاڑیوں کی اندر داخلے کاسلسلہ شروع ہوا ۔۔چار سے پانچ گاڑیاں اندر آکر رکیں سردار بھی دیگر معتبرین کے ہمراہ ان گاڑیوں کے پاس پہنچ گئے۔۔مجھے تب پتہ چلا کہ مہمان آگئے ہیں ۔۔گاڑیوں سے اتارنے والے شہر کے بڑے بڑے بابو لگ رہے تھے جن کالباس ہماری طرح کا نہیں تھا وہ سرکاری آدمی لگ رہے تھے ۔۔سردار آگے بڑھے ان میں سے ایک کی طر ف گلے ملنے کیلئے بائیں پھیلانے کی کوشش کی مگر وہ بابو نے اپناایک ہاتھ آگے بڑھایا اور سردار سے مصافحہ کیا ۔۔

میں حیرا ن ہوا کہ یہ اسی طرح کررہا ہے جس طرح سردار نے بابا کیساتھ یا پھر آنے والے دیگر ہمارے قبیلے کے معتبرین کیساتھ کررہے تھے وہاں بیٹھ کر ۔۔۔سردار مہمانوں کولیکر دوریوں کی جانب بڑھنے لگے ۔۔میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ یہ مہمان جو چوٹ کی بجائے بڑے بڑے بوٹ پہنے ہیں یہ کیسے انکو اس سبزہ زار پر اتاریں گے ۔۔میں دور اس بھیڑ کے پیچھے سہمے سہمے دیکھ رہا تھا ۔۔میں نے دیکھا کہ مہمانو ں نے سردار کے علاوہ کسی سے ہاتھ نہیں ملایا ۔۔وہ چل دیے دریوں کی جانب ۔۔سبزہ زار پر مہمانوں میں سے کسی نے اپنے بوٹ نہیں اتارے ۔۔۔میں سمجھا شاید انکے بوٹ گندے نہیں ہیں ان سے سردار کے گھر کا سبزہ زار خراب نہیں ہوگا ۔۔۔دریوں پر پہنچ کر بھی کوئی نہیں رکا سردار نے اپنے کھلے چوٹ اتار دیے مگر مہمان اپنے بوٹو ں کے ساتھ دریوں پر چڑھ گئے اورجا کر سرداراور انکے لئے لگائے گئے تکیوں کے اوپر بیٹھ گئے سردار تکیے سے ٹھیک لگائے جبکہ مہمان تکیوں کے اوپر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔

میری تو حیرت کی انتہاءہوگئی ۔۔میں نے دیکھا جو معتبرین مہمانوں کی آمد سے قبل تکیوں پر شان سے ٹھیک لگائے بیٹھے تھے اب وہ ان دریوں سے دور ایک طرف لٹے قافلے کی افراد کی طرح کھڑے مہمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔میری حیرت بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ۔۔سردار کے سلحہ بند بہادر جوان جو اس سے قبل آنکھیں دکھا کر یا ماتھے میں بل لا کر اشاروں میں معزز لوگوں کو سردار سے دور کررہے تھے اب وہ خود دورکھڑے بے بسی کی مثال بنے تھے ۔۔۔جب کے مہمانوں کے اپنے سرکاری سلحہ بند وہاں کھڑے ہم سب پر بندوق تانے کھڑے تھے ۔۔۔میں حیرا ن تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔۔مہمانوں کے محافظ ہم پر کیوں بندوق تانے کھڑے ہیں ؟؟؟ ان کو ہم لوگوں سے ایسا کیا خوف ۔۔اور پھر سردار کے وتاخ میں تو دشمنوں کو پناہ ہوتی ہے وہ باہوٹ ہو کر پناحاصل کرتے ہیں تو مہمانوں کو ایسی کیا خوف ؟؟؟

سردار نے مہمانوں کو احوال کرنے کی بجائے ایسے ان سے انکی خیریت دریافت کررہے تھے جیسے توڑی دیر قبل بابا سردارسے انکی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔۔۔سردار کا چہرہ تھا کہ اس پر مصنوعی مسکراہٹ اورہنسی سمیت خوف اور بے اعتمادی کے تاثرات چھپائے نہیں چھپ رہے تھے ۔ ۔۔میں سوچوں میں تھااور اس تمیز سے قاصر ہوئے جارہا تھا کہ سردار کے ہان مہمان آئے ہیں یا پھر کوئی ایسی قوت جو کہ سردار کی اپنی شخصیت سے کہیں بڑھ کرہوں جو انہیں ہضم نہیں ہورہے ہوںجیسے۔ ۔۔۔

میں تو اپنے تہذیب کی زیارت کرنے آیا تھا ۔۔اپنی ثقافت کا عملی نمومہ دیکھنے آیا تھا ۔۔اپنے سماج کی عکس کی دیدار او ر اس سے کچھ سیکھنے آیا تھا ۔۔۔مگر میرا تہذیب اس کے کمزور محافظ کے باعث کسی کے بوٹو ں تلے روندا پڑا تھا ۔۔میرے اقدارکا امین میرے روایتوں کا تخریب کار بنے بیٹھے دریوں جیسے بچھے جارہا تھا۔ ۔۔۔میرے اندر میرے اقدار میری تہذیب جو کہ بابا کی پرورش کی صورت میں میری مزاج اورنفسیات کا حصہ بن چکے تھے ریت کا دیوار ثابت ہوئے گرے جارہے تھے۔۔۔۔

سردار کا وتاخ جو پہلے سردار کے اپنے سلحہ بند محافظ جوانوں کے حفاظتی حصار میں تھا ابھی مہمانو ں کی آمد کے بعد انکے سرکاری محافظوں کے قبضے کا عملی نمونہ پیش کررہا تھا ۔۔میں سردار کے قلعے کی چھتوں پر چڑھے مہمانوں کے محافظوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ وہ قلعہ جو آج سے قبل میرے لئے میری تہذیب میرے اقدار میری تاریخ اور روایت کامحافظ تھا ۔۔ آج کس قدر تباہ شدہ روندا ہواقلعہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔!

عصر قضاءہونے کو تھا میں بابا کے پیچھے پیچھے’ گونی پرا ‘(بولان کے دامن میں مچھ کی قریب پہاڑی کا نام )کے پہاڑوں کے دامن میں داخل ہونے کو تھا ۔۔طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے میں نے سوال کیا ۔۔۔بابا ہمارے چھوٹے چھوٹے ہنکین کا تقدس تو شاید ہی ہم برقرار رکھے ہوئے ہیں انہیں نہیں روندتے۔۔ مگر ہماری قومی ہنکین کیوں روندا جارہا ہے ۔۔۔بابا نے جواب نہیں دیا چلتے رہے ۔۔میں قدم سے قدم بڑھائے جارہا تھا ۔۔گونی پرا کے دامن میں پہنچ کر بابا رکے۔۔ایک طرف ڈھڈر کی پہاڑی تھی دوسری طرف سارو کی پہاڑی ۔۔بابا نے سراٹھایا اورپیچھے موڑ کر کہا ۔۔ ۔بیٹامیری طرح اپنے قلعے اور تہذیب و قوم کے محافظوں کے انتخاب میں غلطی نہیں کرنا کبھی ۔۔۔