داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی اتحاد نے الزام عائد کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم کے جنگجو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔
ویڈیو لنک کے ذریعے امریکی محکمۂ دفاع ‘پینٹاگون’ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اتحاد کے ڈپٹی کمانڈر اور برطانوی فوج کے میجر جنرل فیلکس گیڈنی نے بتایا کہ داعش کے جنگجو شامی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں میں آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ یا تو شامی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی یا وہ کارروائی کی صلاحیت سے محروم ہے۔
تاہم جنرل گیڈنی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی اتحاد شامی حکومت کے علاقوں میں داعش کے جنگجووں کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کا مطالبہ ہے کہ شامی حکومت خود اپنی حدود میں ان کے خلاف کارروائی کرے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اتحاد شام میں اپنے اتحادیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں داعش کو شکست دینے کے عزم پر قائم ہے اور اسد حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی حدود میں بھی ان شدت پسندوں پر قابو پائے۔
بین الاقوامی اتحاد کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق اب شام اور عراق کے ان علاقوں میں داعش کے ایک ہزار سے بھی کم جنگجو رہ گئے ہیں جہاں یہ اتحاد اور اس کے مقامی اتحادی اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
تین ہفتے قبل بین الاقوامی اتحاد نے اپنے علاقے میں داعش کے جنگجووں کی تعداد تین ہزار سے کچھ کم بتائی تھی۔
اتحادی کمانڈروں کے بقول یہ بتانا تو مشکل ہے کہ داعش کے کتنے جنگجو باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں سے شامی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کی جانب فرار ہوئے ہیں لیکن ان کے بقول زمین پر موجود ان کی اتحادی فورسز کا روزانہ کی بنیاد پر فرار ہونے کی کوشش کرنے والے جنگجووں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے سامنا ہورہا ہے۔
داعش کو بظاہر شکست دینے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ شدت پسند تنظیم بدستور ایک خطرہ ہے جو شام اور عراق دونوں جگہ دوبارہ جڑیں پکڑ سکتی ہے۔
اتحادیوں کے بقول داعش نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بدلتے حالت کے مطابق خود کو ڈھالنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتی ہے جس کے باعث یہ امکان موجود ہے کہ وہ شام اور عراق میں اپنے اوپر آنے والے دباؤ کے باعث اپنے حربے اور مرکز تبدیل کرلے۔