پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو تعصب کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے -بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل

600

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لاہور کی جانب سے بلوچستان میں طلباء کی جبری گمشدگی، احتشام بلوچ کے قتل اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کے حراسگی کے خلاف لاہور میں پریس کانفرنس منعقد کی گئی-

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لاہور کے رہنماؤں نے اپنے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے تعلیمی اداروں اور اداروں سے باہر بلوچستان کے طلباء کے ساتھ روا رکھنے والے غیر انسانی اور نفرت پر مبنی سلوک اور رویہ کا پر زور الفاظ میں مذمت کرنا اور ایسے اقدامات کی روک تھام کیلئے ہر پلیٹ فارم پر پر امن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچستان اس ملک کا واحد صوبہ ہے جو قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے لیکن اس کے باشندے انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہے بلوچ والدین محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں بد قسمتی سے بلوچستان کے طلباء جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتے ہیں انہیں غیر آئینی طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے اب تک بلوچستان کے سینکڑوں طلباء کو لاپتہ کردیا گیا ہے ، وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں کچھ معلوم نہیں۔

بی ایس سی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آج بلوچستان سمیت پوری ملک میں جبری گمشدگی جیسے ناسور نے لوگوں کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے اس غیر قانونی عمل نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ذہنی مریض بنا دیا ہے لوگ اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں بولنے سے خوف محسوس کرتے ہیں آئین تمام شہریوں کو آزادی سے جینا اور ان کی زندگی کو تحفظ دینے کی ضامن ہے مگر پچھلے کہی دہائیوں سے مختلف حربے استعمال کرکے بلوچ طلبہ کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طلباء انتہائی مشکلات اور تنگ دستی کے عالم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی ایک درینہ مسئلہ ہے جس کا آج تک کوئی حل نکالنا دور کی بات کوشش تک نہیں کی گئی ہے بلوچ طلباء تمام تر مشکلات اور غربت کے باوجود اپنے تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں بد قسمتی سے کچھ عرصوں سے مختلف ہتھکنڈوں سے انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کبھی انہیں غیر آئینی طریقے سے لاپتہ کردیا جاتا ہے تو کبھی ماورائے عدالت ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں کبھی رات کے اندھیرے میں ہاسٹلز پر پولیس کا چھاپہ پڑتا ہے تو کبھی انہیں دہشت گردی کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے گزشتہ ہفتے قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کو خضدار سے لاپتہ کردیا گیا۔ حفیظ بلوچ کا تعلق جس شہر سے ہے وہاں اندھیر نگری اور لاقانونیت کا راج ہے حفیظ بلوچ جیسے تعلیم یافتہ نوجوان کو لاپتہ کرنا بلوچستان کو مزید تعلیمی پسماندگی اور تاریکی کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے حفیظ بلوچ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا یونیورسٹی کی چھٹیوں میں بچوں کو پڑھا رہا تھا عین اسی وقت طلبہ کے سامنے انتہائی نامناسب اور قابل نفرت انداز میں لاپتہ کردیا گیا یقیناً ایسے عمل سے طالب علموں کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے دوسرا واقعہ گذشتہ ہفتے ضلع پنجگور میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم احتشام بلوچ کی اغواء نما گرفتاری اور پھر ماورائے عدالت قتل ملک کے اعلیٰ اداروں سے انصاف کی طلبگار ہے احتشام بلوچ کے قتل سے معلوم ہوا تعلیم دشمن عناصر کسی بھی وقت بلوچستان کی مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

طلباء کا مزید کہنا تھا کہ انہی واقعات کا ایک کڑی گذشتہ روز گجرات کے یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلباء کو سیکورٹی کے نام پر ہراساں کیا گیا۔ سول وردی میں ملبوس افراد کا یونیورسٹی کے احاطے میں طلباء کو سیکورٹی کے نام پر ہراساں کرنا انتہائی قابل مذمت عمل ہے تمام تعلیمی ادارے طلباء سے سیکورٹی فیس لیتے ہیں تعلیمی اداروں کے سربراہان طلباء کی زندگیوں کے حفاظت کے ذمہ دار ہیں اگر کسی طالب علم کو کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار وائس چانسلر ہوگا۔

انہوں نے کہا بلوچ طلبہ دور دراز علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آتے ہیں صرف ایک مقصد حاصل کرنے کیلئے وہ ہے تعلیم لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ہم جس تنگ نظری اور تعصب کا سامنا کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے ان معاشروں میں ہمیں اپنے ثقافتی لباس میں خوف محسوس ہوتا ہے ان تاثرات سے ہم اپنے آپ کو بیگانہ تصور کرتے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤ نے اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا کہ ان واقعات سے بلوچ طلباء ذہنی کوفت میں مبتلا ہے انتہائی خوف کے عالم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں آج تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی زندگی غیر محفوظ ہے بلوچ طلباء اپنے علاقوں میں بھی محفوظ نہیں کسی ناخوشگوار واقع کی ردعمل میں بلوچ طلباء کو لاپتہ کرنے سے دنیا کو انتہائی غلط تاثر جاتی ہے تمام تر سکیورٹی کلیئرنس کے باوجود طلباء کو ہاسٹلز میں ہراساں کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے ایسے خوف کے ماحول میں بلوچ طلباء بلآخر اپنے تعلیمی کیریئر کو خیر باد کہہ دیتا ہے ان عوامل سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کی گھناؤنی سازش ہورہی ہے جس کے ہم پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایسے ہتھکنڈوں کے خلاف پر امن طریقے سے اپنا کر ہر آئینی اختیار استعمال میں لاتے ہوئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔