پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اتوار کے روز بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء نے اپنے لاپتہ ساتھی حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی اور احتشام بلوچ کی ماروائے عدالت قتل کے خلاف ریلی نکالی اور احتجاجی مظاہرہ کیا –
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی اپیل پر طلباء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور لاپتہ طلباء کی تصویریں اٹھا کر شہر کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی –
قائداعظم یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کو رواں مہینے ضلع خضدار سے لاپتہ کیا گیا جبکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بی ایس پروگرام کے پہلے سمسٹر کے طالب علم احتشام بلوچ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھر پنجگور گئے جہاں لاپتہ ہونے کے بعد اسکی تشدد زدہ لاش ملی۔ انکے ساتھی اور بلوچ قوم دوست جماعتیں ان کے قتل کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز پر عائد کرتی ہیں –
مظاہرین نے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرنے کی التجا کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ بلوچ کو بازیاب کیا جائے –
طلباء نے کہا کہ ہر کسی کے ماں باپ اپنے بچوں کو چھٹیوں میں گھر بلاتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ ہماری منتیں کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے گھر مت آو ورنہ تم بھی لاپتہ یا مار دیے جاؤ گے۔
انکا کہنا تھا کہ امتحانات جاری ہیں لیکن پڑھائی کی بجائے وہ اس وقت یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔
طلباء نے کہا کہ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء خوف کے شکار ہیں اور انکے گھر والے بھی پریشانی میں مبتلا ہیں –
طلباء نے کہا کہ ہمیں پڑھنے دیا جائے طاقت اور بندوق کے زور پر طلباء کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور لاپتہ بلوچ طلباء رہا کرکے انہیں پڑھنے کا حق دیا جائے –
احتجاج میں قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکن پرویز ہود اور فرزانہ باری نے بھی شرکت کی۔: