بلوچستان کی تباہی ۔ محمد امین مگسی

662

بلوچستان کی تباہی

تحریر: محمد امین مگسی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی تباہی میں سب نے برابر کا حصہ ڈالا ہے, وہ چاہے پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ ہو، پی ٹی آئی ہو اسٹیبلشمنٹ ہو، یا پھر وڈیرہ شاہی و جاگیرداری نظام ہو.

ان سب کے مفادات مشترکہ ہیں یہ سب مل کر اپنے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں جبکہ غریب بلوچوں کے بچے دو وقت کی روٹی کو ترستے رہتے ہیں۔

اسلام آباد و پنجاب سے اکثر یہی طعنہ ملتا ہے کہ اپنے سرداروں و نوابوں سے کیوں نہیں مانگتے۔

ان سے کوئی پوچھے کونسے سردار و نواب، وہ سردار و نواب جو ریاستی مفادات کیلئے آگے پیچھے لگے رہتے ہیں، وہ سردار و نواب جو بلوچ عوام سے زیادہ ریاست و اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتے ہیں.

موجودہ سردار و نوابوں میں تھوڑی بہت جذباتی تقاریر بھی صرف اختر مینگل کرتا ہے جسے تقاریر کی حد تک بلوچ اہمیت ضرور دیتے ہیں اس سے زیادہ بلوچ اچھی طرح جانتے ہیں وہ کچھ نہیں کرسکتے اسکے علاوہ کونسا سردار و نواب ہے جسے بلوچ اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں۔

ایک اور اعتراض ہوتا ہے کہ بلوچوں کو اپنی سیاسی قیادت سے مطالبہ کرنا چاہیے۔

کونسی سیاسی قیادت؟ جام و بزنجو جنہیں خود بھی علم نہیں ہوتا کہ بجٹ کس نے اور کہاں تیار کیا ہے، حقیقت تو یہی ہے بلوچ قوم سیاسی قیادت کے اعتبار سے یتیم ہے، بلوچوں کی کوئی سیاسی قیادت نہیں ہے، بلوچ سیاسی قیادت سے محروم ہیں۔

اگر واقعی سیاسی قیادت ہوتی تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی اور غریب بلوچوں کے بچے یوں بے دردی سے قتل نہ ہورہے ہوتے، نہ کسی کی جرات ہوتی کہ وہ کسی بلوچ زادے کو ہاتھ لگاتے، سچ تو یہ ہے بلوچ سیاسی قیادت سے محروم ہیں۔

بلوچستان سیاسی اعتبار سے لاوارث ہے بلوچستان اسمبلی ہو یا پاکستان اسمبلی جتنے بھی بلوچ موجود ہیں ان میں ایک بھی بلوچوں کا نمائندہ نہیں ہے، سارے سردار و نواب اسمبلیوں میں انکے مفادات کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں۔

ایک بھی حقیقی قیادت اسمبلی میں نہیں ہے نہ ہی ان سیاسی لوٹوں کو بلوچوں کی محرومی سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے، کتنے بلوچوں نے انہیں ووٹ دیئے ہیں سب جانتے ہیں, 2018 کے الیکشن میں ، میں نے خود ووٹ کاسٹ نہیں کیا کیونکہ مجھے یہ سب مفاد پرست لگتے ہیں نہ ہی یہ لوگ بلوچ قوم کیساتھ مخلص ہیں. اور کتنے بلوچوں نے انہیں ووٹ دیا ہوگا.

جن بلوچوں نے ووٹ دیا بھی ہوگا وہ بھی کسی مجبوری یا کسی مصلحت یا مفاہمت کے تحت دیا ہوگا، کسی کو اپنی نوکری اور پیٹ پالنے کی مجبوری ہوگی، کسی کو اپنے معاملات بہتر کرنے ہونگے، کوئی دوستی میں مجبور ہوگیا ہوگا، کسی نے گاؤں کے بڑے کو خوش کرنے کیلئے دیا ہوگا کسی نے باپ و بھائی کو خوش کرنے کیلئے دیا ہوگا، کوئی ہم جیسے بھی ہونگے الیکشن میں جاکر بھی ایسے واپس آگئے ہوں گے مگر کسی کو ووٹ نہیں دیا ہوگا.

بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لانے میں سب نے اپنا برابر کا حصہ ڈالا ہے اور ابھی تک اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں