فدائیوں کا خون کل آزادی کے رنگ میں بدلے گا ۔ عاصم بلوچ

795

فدائیوں کا خون کل آزادی کے رنگ میں بدلے گا

تحریر: عاصم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“فدائی” کہنے کو تو یہ ایک لفظ ہے مگر اس لفظ کے پیچھے کتنے جذبات و احساسات چھپے ہیں یہ صرف پہاڑوں پر بیٹھے وہ کُنگر (شیر کے بچے) سمجھ سکتے ہیں جو اپنی جوانی، اپنے گھر بار، اپنے ذاتی خواہشات اپنی ذاتی زندگی قربان کرکے سر پر کفن باندھ کر پہاڑوں میں سوکھی روٹی اور  چائے پر گُزارا کر رہے ہیں. جن کی زندگی کا مقصد اپنے آنے والے نسلوں کو ایک آزاد وطن دینا ہے، آج پہاڑوں میں ہر ایک نوجوان فدائی ہونے کو تیار ہے سب قطار بنا کر انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ان کی باری آئے اور کب یہ اپنے وطن کے لئے جان کا نذرانہ پیش کریں، اور ان فدائیوں کو نہ جنت کی لالچ دی جاتی ہے اور نہ ہی شہید ہونے کے بعد ان کے گھر والوں کو کروڑوں روپے دے کر ایک انفرادی زندگی بسر کرنے کی لالچ دی جاتی ہے بلکہ آج بلوچ قوم کا ہر ایک نوجوان اپنی جان اور خون کے اک اک قطرے کو گُلزمین کی امانت اور اُس کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے، آج جب فدائی کا ذکر ہوتا ہے تو اُس زمین کو جاکر چھومنے کو دل کرتا ہے جس زمین پر اُن کا خون گِرا ہو پھر چاہے وہ دالبندن میں شہید ریحان کا خون ہو یا گوادر میں سربلند کا، کراچی میں سلمان جان کا ساتھیوں سمیت ہو یا پنجگور و نوشکی میں شہید بادل بلوچ کے ہمراہ باقی ساتھی، ان سب نے اپنی زمین کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا کر اپنی جان قربان کر دی. جب ریاست اپنے میڈیا پر ان کو دہشت گرد قرار دے کر کہتا ہے کہ ہم نے دُشمنوں کو مار گِرایا تو ریاست شاید یہ بات بھول گئی ہے کہ تم نے ان کو نہیں مارا یہ خود شہید ہونے آئے تھے جب یہ فدائی کے مشن کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے مشن میں کوئی واپسی کا راستہ نہیں ہوتا بس یہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور للکار کر کہتے ہیں کہ ہم تو آئے ہیں شہید ہونے کے لیے کیونکہ ہمارے بعد ہمارے پیچھے ہزاروں جوان اپنی سرزمین کی بقاء کے لیے سر پر کفن باندھ کر تیار بیٹھے ہیں،

آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد پہاڑوں سے نکل کر شہروں تک آ پہنچا ہے کل تک جن کو ریاست چار ہندوستانی ایجنٹ کا نام دے رہا تھا آج وہ لاکھوں کی تعداد میں بلوچ بن کر بلوچستان کے وارث بن کر بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں بس بلوچ قوم کو یکمشت اور ہم آواز ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ:
ہماری جنگ ایک ہاری ہوئی لشکر سے ہے
ہمارا دشمن تھک چکا ہے
وہ خوفزدہ ہے وہ ڈرا ہوا ہے
اسے ڈر ہے ہمارے بلند حوصلوں سے
اسے ڈر ہے ہماری فیصلوں سے
ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں
ہمارے شہداء سرخرو ہوئے ہیں
اُنہیں ہمارے قبرستانوں سے خوف ہے
انہیں ہماری میتوں سے خوف ہے
اُنہیں آج بلوچستان کے بچے بچے سے خوف ہے.
آج وہ سات سال کے بچوں سے لیکر ستر سال کے بزرگوں تک کو ٹارچر کرنے پر مجبور ہوچکا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ بلند حوصلے اُسے یرغمال بنا چکے ہیں.
ہمارے فدائی سرخرو ہوچکے ہیں اور اِن شہیدوں کا خون جلد از جلد رنگ لائے گا اور رنگ بلوچ سر زمین کی آزادی کا رنگ ہوگا..!

“‏جی بات شھیدیں کنگراں ڈیھ ءِ تمردیں باج براں
برمش اِنت ھمک دیم ءَ بچار برگیڈ ءِ جنگولیں سراں”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں