صد افسوس! ہمارا میڈیا پنجگور، نوشکی اور تربت کے صحیح حالات نہ دکھا سکا ۔ جاوید بلوچ

552

صد افسوس! ہمارا میڈیا پنجگور، نوشکی اور تربت کے صحیح حالات نہ دکھا سکا

تحریر: جاوید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ 2009 کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ کا پروگرام گوادر میں منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کی کوریج کے لئے حسب روایت اسلام آباد سے صحافیوں کو بھی بلایا گیا تھا۔

ملک کے تقریباً تمام قومی چینلز پر اس دن گوادر کو کئی بار دکھایا جا رہا تھا۔ اس دن بھی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر شہر کے اندر اور باہر سخت سیکیورٹی تھی۔ ماہی گیروں کو سمندر جانے سے روک دیا گیا تھا۔ پی سی ہوٹل کو جانے والی مغربی ساحل پر سڑک کے اطراف کی دکانیں بند کرائی گئی تھیں۔

انہی حالات میں بھی ملک کے ایک نامور اینکر نے ساحل پر کسی ایک ماہی گیر سے پوچھا کہ آپ آج سمندر نہیں گئے تو آپ کے گھر میں فاقہ نہیں ہوگا؟ اس بلوچ ماہی گیر نے اپنے فاقے کو ایک دن کے لئے فراموش کرکے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں لیکن آج ایک دن کے لئے ہمارا گوادر تو ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے ناں۔

اس دن کے بعد سے گوادر پھر تقریباً ہر ایک دو یا تین ماہ بعد ٹی وی پر دکھایا گیا اور اتنا دکھایا گیا کہ باقی پاکستان کو بلوچستان کا نام سنتے ہی گوادر پورٹ کا ہی خیال آتا۔

گوادر کے علاوہ جیسے بلوچستان میں نہ کوئی شہر تھا نہ علاقہ لیکن گذشتہ تین دنوں سے ٹویٹر پر پنجگور، نوشکی، تربت اور بلوچستان ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ باقی پاکستانیوں میں سے ایک بڑی اکثریت کو پہلی دفعہ نوشکی اور پنجگور جیسے شہروں کا پتا لگ گیا۔

بلکہ ہمارے وزیر داخلہ صاحب کو بھی شاید پہلی دفعہ کسی پنجگور شہر کا پتا چلا، جسے وزیر صاحب نے “پنگجور” بنا دیا۔ ٹویٹر پر پہلی دفعہ کئی پنجابی دوستوں کو ایسے سوالات اٹھاتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ وہ ریاست سے پوچھ رہے تھے کئی دہائیوں سے چند مٹھی بھر شدت پسند بلوچ آخر ختم کیوں نہیں ہو پا رہے ہیں؟

پہلی دفعہ سرداروں کے خلاف پنجابی اور بلوچوں کو اتفاق کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ پہلی دفعہ عام پنجابیوں کو یہ سوال پوچھتے ہوئے دیکھا گیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں مسئلے کی تشخیص کیا ہے؟

ظاہر سی بات ہے، سوالات اور مکالمے سے خوفزدہ طبقے کو چونکہ ہمیشہ سے سوالات سے ڈر لگتا ہے تو ایسے میں وہ طبقات بلوچستان میں مصنوعی سردار، میر اور پارٹیوں کے بعد مصنوعی نوجوان قیادت کی فیکٹری سے کود پڑے۔

جو بھی سوال اٹھائے اسے بھرپور تیاری اور تربیت کے ساتھ غدار ثابت کیا جائے تاکہ وہ آئندہ سوال کرنے کی جرات نہ کرسکے اور ان کی روزی روٹی بند نہ ہو۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے نام پر ایک ایسی فیکٹری تقریباً انہی دنوں کے لیے تیار کی گئی ہے کہ وہ عام حالات میں صرف چار کلومیٹر کی گوادر کی ایک سڑک، چند اقساط کی صحافتی معیار سے گرے وی لاگز اور ایک دو ایسے چند نوجوانوں کی کسی مہنگے فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے کی عکس بندیوں کو پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان دکھا کر عام پاکستانیوں کو دھوکا دیں۔ غربت اور افلاس کے مارے بلوچستان کے وسائل کو ضائع کریں۔

جب ایسے حالات ہوں کہ شدت پسندی اور جنگ سے متاثرہ بلوچستان کا کوئی شہر کسی ناخوشگوار واقعہ کی وجہ سے ٹرینڈ پر آ جائے اور عام پاکستانی سوال کریں تو ان سوالات کو دفنانے کے لیے اسی مصنوعی نوجوان قیادت کی فیکٹری سے تیار شدہ ممبرز کو دھمکیاں دینے اور خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

کیونکہ سوال اور مکالمہ جتنا کم ہوگا، حالات جتنے خراب ہونگے، جھوٹ اور مکاری سے دکھائے گئے بلوچستان کو جتنے زیادہ پاکستانی دیکھیں گے، اتنا ہی زیادہ اس مصنوعی نوجوان قیادت کی فیکٹری کو پیسہ ملتا رہے گا۔

پچھلے دنوں جب شورش اور جنگ کی وجہ سے عام پاکستانی پنجگور اور نوشکی کی حالات سے متعلق مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سوالات اٹھا رہے تھے تو مقامی صحافی گراؤنڈ کی حالات سے لوگوں کو باخبر رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایسے میں بلوچستان کے پیسوں اور وسائل پر چلنے والا ایک ادارہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کر رہا تھا تاکہ بلوچستان کی خبریں کسی لاہور اور اسلام آباد والے تک نہ پہنچ پائیں۔

اس مصنوعی نوجوان قیادت کی ایک سرینا ہوٹل والی خاتون نے ایک بلوچ لڑکی کی صرف اس لئے کلاس لی اور بار بار اسے معافی مانگنے کے لئے ہراس کرتی رہی کیونکہ اس لڑکی نے یہ پوچھا تھا کہ آپ کوئٹہ سرینا ہوٹل تو جاتی ہیں مگر پریس کلب کے سامنے لگے لاپتا افراد کی کیمپ میں نہیں؟

یہ سوال نہیں تھا گویا کوئی ایٹم بم کہ خاتون آگ بگولا ہوگئی۔ اس نے ناصرف ماما قدیر کو ہزاروں لوگوں کا قاتل، منظور پشتین کو دہشت گرد اور قائداعظم و پنجاپ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچ نوجوانوں کو گند مچانے والے کا بھی سرٹیفکیٹ دے دیا۔ اس سے پہلے کچھ اور صحافیوں کو دھمکیاں دیں کیونکہ ان کے سوال کرنے سے ان کی روزی روٹی بند ہونے کا خطرہ تھا۔

ہمارا میڈیا جو بقول جناب چوہدری فواد صاحب کے یورپ سے زیادہ آزاد ہے، وہ افغانستان پر طالبان کی پیش قدمی کی لمحہ بہ لمحہ بریکنگ نیوز دے رہا تھا۔ وہ آزاد میڈیا جس نے کترینا کی شادی کی تقریباً تمام رسومات دکھائے، مگر پنجگور، نوشکی اور تربت کے حالات نہ دکھا سکا۔

ایسے میں یہ سوچنا فضول تو نہ ہوگا کہ نہ جانے کتنے بلوچستانی صرف یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہونگے کہ چلیں جنگ تو پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے، لوگ تو کئی دہائیوں سے اٹھائے اور مارے جارہے ہیں مگر تین دنوں سے بلوچستان کے چند شہروں کے نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ تو کرتے رہے۔ کاش کہ یہ ٹرینڈ ایسے کبھی نہ ہوتے مگر کیا اس کے بغیر ہوتے؟

بدقسمت بلوچستان کی اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اور مگر مصنوعی بناوٹ اور دکھاوے پر جب بھی کوئی ضرب لگتی ہے تو تصویر ایسے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ اگر قومی میڈیا کابل پر طالبان کی فتح کی خبروں سے اچھلے گا تو سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ پنجگور، ہیش ٹیگ نوشکی اور ہیش ٹیگ بلوچستان ایسے ہی نظر آتے رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں