نیا سال اور پرانی زندگی
تحریر: سمی دین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب میں اپنے نوٹ بک میں کچھ نکات لکھ رہی تھی کہ اس سال اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد کو کیسے مضبوط اور اثرانداز بنایا جاسکتا ہے۔ کونسے نئے طریقے اپنائے جاسکتے ہیں؟ کس زبان میں ہماری فریاد سنی جاسکتی ہے؟ کون سے لفظوں میں ہماری درخواست سمجھی جا سکتی ہے؟
اسی دوران سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹس پر آنکھ پڑی جس میں کچھ لوگ نئے سال کی مبارکبادی دے رہے تھے۔ کچھ لوگ پرامید باتیں کررہے تھے اور کچھ لوگوں نے درجنوں کتابوں کی تصویریں شئیر کی تھیں کہ آنے والے سال وہ یہ کتابیں پڑھینگے، یہ دیکھ کر میں ایک سوچ میں پڑ گئی کہ ہماری زندگی تو بالکل محدود ہوچکی ہےبلکہ رک سی گئی ہے۔
ہمارے دن، مہینے، سال تو بدلتے ہی نہیں ہیں
کتنے مختلف ہیں ہم اور کتنے مختلف ہیں وہ لوگ!
وہ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں
انکےوقت بدل رہے ہیں
حالات بدل رہے ہیں
عمر بدلنے کے ساتھ تقاضے بدل رہے ہیں
وہ خواہشیں رکھتے ہیں
مستقبل کیلئے پرامید ہیں
وہ خواب دیکھ رہے ہیں اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں پرجوش ہیں
لیکن
ہم جمود کا شکار ہیں
نہ ہمارے وقت بدل رہے ہیں نہ حالات۔
ہماری زندگی تو عدالتوں سے شروع ہوکر پریس کلبوں تک ختم ہوتی ہے۔ ہمارا سفر تو سالوں سے ایک جیسا ہی ہے جو بوجھل دل کے ساتھ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ہورہا ہے۔ ہمارا ہر لمحہ صدی بن کے گذر ہا ہے اور وہ صدی اذیت اورکربناک انتظار میں گزر رہی ہوتی ہے۔ ہماری زندگی اپنے پیاروں کی تلاش سے شروع ہوکر انکی بازیابی کی ناکام کوشش تک ختم ہورہی ہے۔ ہم صرف یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اس سال احتجاجوں کا کونسا طریقہ اپنائیں، ظالموں کے دلوں میں کیسے رحم کا دیا جلائیں، مظلوموں کو کیسے ہمت دیں کہ مایوس نہیں ہونا ہے۔
ایسا کیا کریں جس سے ہمارے پیارے لوٹ آئیں اور ہمارے لئے بھی یہ سال نیا ہو زندگی نئی ہو ہمارے دلوں میں بھی امید ہو کچھ نیا اور الگ کرنے کا جوش ہو۔
اور ہمارے پیارے آزاد ہوں، وہ کھلی فضا، نیلا آسمان، سورج کی روشنی، رنگین موسموں کو اور رات کو ستارے دیکھ سکیں۔ ان کے ہاتھوں میں زنگ آلود زنجیروں کی جگہ کلائی پر وہ گھڑی بندھی ہو جو ان کی بیوی نے سنبھال رکھا تھا جس میں وہ وقت کو اپنی فیملی کے ساتھ نئی امنگوں سے بدلتے دیکھیں۔
وہ زندان کی چھ فٹ گندی زمین پر اذیت میں سونے کی کوشش کے بجائے اپنے گھر کے صاف نرم بستروں پر سوپائیں، وہ اپنے ہم قفس قیدیوں کے چیخ و پکار کے بجائے چہچہاتے پرندوں کی آوازیں سنیں
اپنے میلے ناخن کاٹ کر نئے کپڑے پہن کر، کپڑوں پر خوشبو لگا کر وہی خوبصورت چہرہ نظر آئے جو آخری بار گمشدہ ہونے سے پہلےتھا۔
ہر غمزدہ چہرے پر مسکراہٹ ہو، بیویوں کے ہاتھوں میں مہندی رچے
مائیں راتوں کو اٹھ کر سجدے میں فریاد کرنے کے بجائے پرسکون نیند سوئیں، بھائیوں کو پھر سے وہ مضبوط کندھا ملے۔ بہنیں پریس کلبوں میں جانے کے بجائے اس گھر کا رخ کریں جو کئی سالوں سے بھائی کی جبری گمشدگی میں ویران پڑا تھا۔ گھر والوں کیلئے وہ زہر جیسا کھانا پھر سے ذائقے دار ہو، گرمی میں وہ ہوا کا جھونکا اس گمشدہ شخص کی یاد نہ دلائے، سردی میں اوڑھنے والی چادر اسکی یاد میں آنسوؤں سے تر نہ ہو۔
لمحہ صدی نہ لگے
انتظار کی اذیت نہ ہو
خوشی ، خوشی لگنے لگے
ہنسی صرف لبوں سے نہیں دل سے نکلے
عیدیں پریس کلبوں کے بجائے گھروں میں ہنسی خوشی منائے جائیں
رات بستر پر آنسوؤں کے بجائے خواب بنُنے لگیں اور صبح بیٹیاں پیدل لانگ مارچ کرنے کے بجائے اپنا بستہ لے کر اسکول کا رخ کریں اور نئے سال کی آمد پر پرُاثر احتجاجوں کے بجائے وہ بھی بک اسٹال پر جاکر کتابیں خرید کر اپنا سالانہ کتابوں کی پڑھائی کا ہدف بنائیں۔
وہ لوگ جنکے لئے سال نیا ہے انہیں نئے سال کی مبارکباد، بس ایک التجاء ہے کہ ان خاندانوں کو کبھی مت بھولیں جو ایک مسلسل جبر ،اذیت، در بہ دری، بے کسی اور مظلومیت کا شکار ہیں اپنے نئے سال میں ان دکھی خاندانوں کے ساتھ انکے گمشدہ پیاروں کی لڑائی میں ساتھ دینے کا بھی ہدف بنائیں تاکہ آپکے ساتھ کی وجہ سے ان کی ڈھارس بندھے دل میں امید کی کرن روشن رہے کہ ایک دن انکے بچھڑے پیارے ضرور لوٹ آئیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں