لاپتہ طالب علموں کی عدم بازیابی پر احتجاج کا راستہ اپنائینگے – بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل

451

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے رہنماوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے جبری طور پر لاپتہ طالب علموں فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ کے عدم بازیاب کے حوالے سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کا شمار اُن خطّوں میں کیا جاتا ہے جہاں کی عوام انتظامی، معاشی اور علمی مشکلات سے دو چار ہونے کے ساتھ ساتھ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک گھمبیر انسانی بحران سے بھی گزر رہی ہے جس کی بنیادی سبب تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جبری گمشدگی ہے۔بلوچستان کے تمام علاقہ جات اور عوام جہاں اس غیر آئینی اور غیر انسانی عمل کا شکار ہیں تو دوسری جانب نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ اس عمل سے متاثر ہوتی آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی جہاں ایک معمہ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں سے بھی طالبعلموں کی جبری گمشدگی کا ایک تسلسل شروع کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے احاطوں سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواں سال جون کے مہینے میں فورسز کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار میں زیر تعلیم طالبعلم شاہ میر بلوچ کو جامعہ کے ہاسٹل سے لاپتہ کیا گیا اور تا حال وہ لاپتہ ہیں۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے، رواں سال یکم نومبر کو دو طالبعلموں سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تاحال وہ لاپتہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جامعات کے احاطوں سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی نہایت ہی تشویشناک ہے، اس عمل کے خلاف جامعہ بلوچستان کے طالبعلموں اور طلباء تنظیموں کی جانب سے گذشتہ انیس دنوں سے جامعہ بلوچستان کو احتجاجاً بند کیا گیا ہے اور کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ جامعہ کے احاطے میں طالبعلموں کے جان و مال کی حفاظت کا مجاز مکمل طور پر جامعہ کا انتظامیہ اور حکومت وقت ہے لیکن مقتدر قوتوں اور جامعہ کے انتظامیہ کی جانب سے طالبعلموں کی شنوائی نہ کرنا اور طلباء کے مطالبات کی جانب غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا نہایت ہی قابل مذمت ہے۔ جامعہ بلوچستان جہاں سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز موجود ہیں وہیں دن دہاڑے طالبعلموں کا لاپتہ ہونا نہایت ہی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان، جہاں تعلیمی ادارے نہایت ہی قلیل تعداد میں میسر ہونے کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے، وہیں اس مخدوش نظام تعلیم میں طالبعلموں کی ایک محدود تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تو انھیں مختلف مسائل درپیش آتی ہیں جن میں سب سے مہلک طالبعلموں کی جبری گمشدگی ہے۔ تعلیمی اداروں میں جہاں سہولیات کا فقدان ہے تو وہیں بلوچستان یونیورسٹی جیسا تعلیمی ادارہ ایک درسگاہ کے بجائے چھاؤنی کا منظر پیش کرتی ہے۔ تعلیمی ادارے میں ایک ایسے ماحول کی پروان نہایت ہی تشویشناک ہے اور حکومت کو اس حوالے سے ایک جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہونے کے باوجود جامعہ بلوچستان کے احاطے سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی نہایت ہی تشویشناک ہے۔ اس عمل کے خلاف طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد جامعہ میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور حکومت وقت سے اپنے دوستوں کی بازیابی کی اپیل کر رہے ہیں ۔ حکومت وقت اور تمام مقتدر قوتیں ان ٹھٹرتی اور سرد راتوں میں بیٹھے طالبعلموں کو کسی بھی طور پر سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں اور طلبہ مسائل پر کسی قسم کی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے۔ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکومت اور تمام مقتدر قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت شاہ میر بلوچ کو منظر عام پر لایا جائے اور جامعات کے احاطوں میں طالبعلموں کو ایک پر امن اور علمی فضاء مہیا کرنے کےلیے عملی اقدامات کی جائیں۔

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں دھرنے پہ بیٹھے طلباء کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد بھی اگر لاپتہ طلباء کو بازیاب نہیں کیا گیا تو اس غیر آئینی عمل کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔