پہلے لوگوں کو فوج مارتی تھی، اب نام تبدیل کرکے سی ٹی ڈی رکھا گیا ہے – سردار اخترجان مینگل

350

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ حکمرانوں کو بلوچستان کے لوگوں اور یہاں کے مسائل کی بجائے وسائل سے سروکار ہیں بلوچستان میں جاری 20سالوں کی شورش پر کوئی حکومت حرکت میں نہیں آئی لیکن 7سے زائد اہلکاروں کو قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو معاف کیا جاتا ہے۔ بلوچستان سے طلباء کی گمشدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے، یونیورسٹی سیکورٹی اہلکاروں کی آماہ جگاہ لیکن طلباء کی گمشدگی اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم دلانے والے بلوچستانیوں پر ایک سازش کے تحت تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، تحریک لبیک اور تحریک طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ناراض بلوچوں سے کیوں نہیں؟

سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ بلوچستان سے طلباء کی گمشدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اس سے قبل بھی یہاں کے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے ان کی لاشیں پھینک دی جاتی تھی جس کا الزام سیکورٹی اداروں پر لگتا تھا لیکن اب صرف نام تبدیل کیا گیا ہے پہلے تو سیکورٹی فورسز شامل تھے اب سی ٹی ڈی کا نام دیا گیا ہے، سی ٹی ڈی اپنے منہ پر یہ کالک لگا کر بھی خوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک اور تحریک طالبان سے مذاکرات کئے جاتے ہیں پھر انہیں کالعدم قرار دیکر پھر مذاکرات ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر تحریک لبیک سے کالعدم کا لفظ ختم کرکے انہیں ملک میں سیاست کی اجازت دی جاتی ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں 20سالوں سے جاری شورش کے خاتمے کیلئے کوئی حکومت حرکت میں نہیں آتی، ہم تو کہتے ہیں کہ تحریک لبیک سے مذاکرات اس لئے بھی جلدی کئے گئے کیونکہ دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا اور دونوں طرف نقصان اپنا تھا حالانکہ ایک ہفتے میں 7 سے زائد پولیس اہلکار قتل اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اس کے باوجود ان کاقصور معاف کردیا گیا۔

سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو یونیورسٹی بھیج کر تعلیم دلاتے ہیں تو پھر انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے اور ایک سازش کے تحت ان پر تعلیم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں، بلوچستان یونیورسٹی جو سیکورٹی فورسز کی آماہ جگاہ بنی ہوئی ہے کے باوجود 2 طلباء لاپتہ ہوتے ہیں جو سیکورٹی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہاکہ صوبے میں مسخ شدہ لاشیں اور جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایاکہ حب میں حالیہ مقابلے بارے بتایا گیا تھا کہ گولہ بارود برآمد کرلیا گیا ہے تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ملزمان کے پاس صرف ایک پسٹل اور ایک میگزین تھی ہم بے گناہ لوگوں پر مظالم کو فراموش نہیں کر سکتے حکمرانوں کو بلوچستان کے لوگوں اور یہاں کے مسائل کی بجائے وسائل سے سروکار ہیں تحریک لبیک اور تحریک طالبان سے مذاکرات کیلئے تو حکومت اور ادارے ایک پیج پر آکر مذاکرات کرتے ہیں لیکن ناراض بلوچوں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی عوام باشعور ہوچکی ہے اب مزید طفل تسلیوں سے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا عوام مظالم پر خاموش نہیں رہیں گے۔