بلوچ قومی جہد اور لیڈر شپ کا مسئلہ – منظور بلوچ

800

بلوچ قومی جہد اور لیڈر شپ کا مسئلہ

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس امر میں کلام نہیں کہ کسی بھی معاشرے کی سدھار، اور کسی بھی تباہ حال قوم کی نیا کو پار لگانے میں لیڈرشپ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ہم بھی ایک عجیب قسم کی قوم ہیں، قدرت نے ہمیں بیش بہا لیڈروں سے نوازا، جن میں بلوچوں کی جدید تاریخ میں بابامری، شہید نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاء اللہ خان مینگل سب سے اہم اور صف اول کے رہنما ہیں۔ اس سے قبل یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد اور اب جاری صورتحال میں ہم نے بڑے اور عظیم لیڈروں کو بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھا، صباء دشتیاری جیسے عظیم استاد اور بہت سارے دیگر ہیروز، لیکن ان سے متعلق کچھ لکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ جیسا حرف نا آشنا شخص محض اپنے جذبات اور تاثرات تو بیان کرسکتا ہے، ان شخصیات پر لکھنے کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے، اور جب وہ قلم ہی پاس نہ ہو، جو ان عالی مرتبت قائدین کی زندگیوں کو بیان کرسکے تو اس سے بہتر ہے کہ ان کے بارے میں میں لکھنے سے گریز کیا جائے۔ مبادا ہماری تحریروں سے ان کی شخصیت کا چھن چھن کرتا ہوا نور بھی بے ذائقہ، بے رنگ ہوسکتا ہے، ماضی قریب میں بھی اور اب بھی کچھ لوگوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ ان قائدین پر لکھیں، لیکن ان کا لیکھا، ہر بار منہ کے بل گر جاتا ہے، اور ان شخصیات کے ساتھ ایک قسم کی حد درجہ سنگین نا انصافی کا سبب بنتا ہے، کیونکہ بقول شخصے ہم ایک جذباتی قوم بن کر رہ گئے ہیں، جن کو بڑے مصالحے دار اور گرجتے ہوئے نعرے پسند ہیں۔ شاعری ہویا نثر یا موسیقی، وہ فقط نعرہ بازی اور صحافیانہ قسم کی رپورٹنگ کو ہی شاعری، موسیقی، نثر اور کتاب سمجھنے لگے ہیں۔ اور ایسی ناقص رپورٹنگ جسے شاید صحافت کا نام بھی نہیں دیا جاسکے، اس پر وہ واہ، واہ کی جاتی ہے کہ حیرت ہونے لگتی ہے کہ اچھے بھلے شائستہ قسم کے لوگ وہ بھی اس حصار کے قیدی بن کر رہ جاتے ہیں، ترغیب، تعلیم کی نصیحت، جلسے، جلوسوں کے لیے ہونے والی شاعری نے ہمارے آج کل کے ادب، جس سے بڑی امیدیں تھیں، اس کی ابتدا، روایت اور ارتقا کی جڑوں کو کچھ اس طرح سے نقصان پہنچا رہے ہیں جیسے کوئی ادب لطیف، سروں کے جادو، سنگیت کے کیف کی جڑوں کو ڈائنامائٹ سے اڑانا شروع کر دے، تو ایسے میں جب ہمارا پیارا بلوچستان انگنت مسائل سے دوچار ہے، مسئلہ کو سمجھنے کی بجائے ہمیں رنگ برنگی جھنڈیاں دکھائی جاتی ہیں، اور ہم ان رنگ برنگے لہرائے جانے والے جھنڈوں کے جنگل میں گم ہو کر اپنے حواس بھی کھو بیٹھتے ہیں اور خود بھی کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو کنفیوز کر رہے ہوتے ہیں، لیکن جذباتی مخلوق کو ان باتوں سے کیا سروکار، وہ ٹرینڈ چلانے کے نشے میں مبتلا ہیں، وہ ساری صورت حال کو جاننے کے باوجود کچھ بھی نہ جانتے ہیں، اور جو کچھ وہ نہیں جان پاتے اسی کو سب کچھ مان کر چلتے ہیں ”بھلے شاہ سے پوچھا تھا کون ہے؟ کون ہوں میں نہیں جانتا، بھلے کا جواب تھا، بڑی بات کر گیا بلھا، بڑا آدمی تھا“ پروفیسر طفیل ڈھانہ نے یہ بات بتائی تھی۔

ہمارے ہاں ذہنی سروکاروں، سوچنے، غور و فکر کرنے، مطالعہ کرنے، مشاہدہ کرنے کو فضول قسم کی مشق سمجھ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، تو ایسے میں کیا لکھنا، کیا بولنا۔ اصل میں بعض لکھنے والوں کو، بقول کشور نائید ”لکھاریو“ کی بیماری لگ چکی ہے، چونکہ ہم جیسی جذباتی مخلوق کو علم و ادب، کتاب سے کوئی لگاؤ نہیں رہا (چند ایک استثناء ہوسکتے ہیں) مجموعی طور پر ہمارا رشتہ کبھی کتاب سے، محسوس کرنے والی شاعری اور سریلی کان جوسر اور سنگیت کی پر تھان کی مدہوشی کا مذاق رکھتے ہوں، سے کبھی جڑ نہ سکا۔ ایسے میں ہمارے ارباب ثلاثہ کی آخری کڑی سردار عطاء اللہ مینگل کے انتقال کے بعد لیڈرشپ کے فقدان کے مسئلے کو سمجھنا اور ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن دیگر مسئلوں کی طرح ہمارے ہاں یہ بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں، جس کو ہم اپنی ذہنی سروکاروں کا حصہ بنائیں اور جذباتی مخلوق کی فرمائش، ٹرینڈ سینٹروں کے مجاہدوں کی واہ واہ سے نکل کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کبھی دیگر مسئلوں کو جو لیڈرشپ کی مسئلہ سے جڑا ہوا ہے، سوچیں اور غور کریں، اندھی تقلید نے ہمیں کنویں کا مینڈک بنا رکھا ہے، اختلاف رائے سے زیادہ دنیا میں اور کیا شے خوب صورت ہو سکتی ہے؟ لیکن ہم اختلاف رائے کے حسن سے بھی ڈرتے ہیں، اور نیم حکیموں کی طرح نیم پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ جو ہمیں کبھی لال، کبھی ہری جھنڈیاں دکھا کر ہمارے جوش و خروش کی سمت کو اپنے من مانے راستے پر ڈالنے کی ملکہ رکھتے ہیں، ایسے میں ایک لکھنے والے نے بلوچ قومی جہد کے حوالے سے لیڈرشپ کے مسئلہ کو اٹھایا ہے، یہاں یہ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جس طرح کی لیڈرشپ پائی جاتی ہے، اس کی کلاسفکیشن بہت ضروری ہے۔ یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ہر ”سیاسی جماعت“ کے سب سے بڑے مکھیا کو بھی لیڈر سمجھا اور پکارا جائے، اس طرح سے دیکھیں تو جس طرح بلوچستان میں دانشوروں کا ایک سیلاب آیا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح لیڈرشپ ٹڈی دل کی طرح قومی جدوجہد کی ہری بھری، لہلہاتی، مٹی کی خوشبو سے رچی ہوئی ہر فصل پر حملہ آور دکھائی دیتی ہے۔ عام زمین داروں نے حال ہی میں ٹڈی دلوں کے یاجوج ماجوج قسم کے حملوں کو روکنے کے لیے اپنی فصلوں کے اردگرد پلاسٹک کی دیواریں بنائیں، لیکن حقیقی بلوچ قومی فصل کے لئے تو ہمارے پاس پلاسٹک کی دیواریں بھی نہیں اور وہ یہ ہوش بھی نہیں کہ ہماری وہ فصل جو لہرا رہی ہے، اس کی پانی کی بجائے خون سے آبیاری کی گئی ہے اور ایسی فصل پر ٹڈی دل جیسے یاجوج ماجوج کے حملے کیا تباہی مچا سکتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں جو کہرام اٹھ سکتا ہے، اس بارے ہر سو خاموشی چھائی ہوئی ہے، موت و زیست کی شاہراہ پر کھڑی بلوچ قوم کو راستہ دکھانے والے رہنماؤں کی ضرورت ہے اور ایسا بھی نہیں کہ ایسے رہنماء ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن سنجیدگی سے پوری سیاسی شعور کی قوت سے اس مسئلہ کی جانکاری کی بھی تو ضرورت ہے۔

ساکا خان نامی ایک لکھاری نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں اس جانب نشاندہی کی ہے، میں ساکا خان کو اور اس کی تحریروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا لیکن میرے ایک دوست نے ان کی ایک تحریر جو بلوچستان میں حقیقی لیڈر شپ کے مسئلہ کو اٹھا کر لکھی گئی ہے، مجھے واٹس اپ پر بھیجی تھی، اس تحریر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، اس مسئلے سے متعلق سوچنے اور سمجھنے کے اور زاویے بھی ہوسکتے ہیں۔لیکن کیا اس اہم اور قومی بلکہ ہماری تہذیب کے ختم ہونے کے (خدا نہ کرے) خدشات پر پُرمغز مکالمہ اور عملی رائیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے؟

ساکا خان کے قلم سے جو کچھ تحریر کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے، اس کے پورے مضمون کو تو یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے چیدہ چیدہ نکات جو لائق غور وفکر، اور سوچنے، سمجھنے کے ذہنی سروکاروں کی دعوت دیتا ہے، ان کو بیان کرکے اس امر کو بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی لیڈر شپ نظر میں موجود ہے، تو خود اس لیڈر شپ کے اپنے اوصاف کیا ہیں، کیا ہونے چائیں، اور ایسی لیڈر شپ میں کیا کچھ ہونا چاہیے کہ وہ ازخود اس درد کی ماری قوم کا راستہ، راہبر بن سکے اور جذباتی ہجوم کے آگے بند بنانے کی بھی بھرپور اہلیت رکھتا ہو، ٹھیک ہے کہ ہم اس وقت جذباتی بریگیڈ کے ہاتھوں یرغمال ہیں، اور یہ جذباتی مخلوق قوم کے پیر و جوان، بچے، عورتیں، سبھی کی قربانیوں کو اپنی کم فہمی، واہ واہ کے قصیدوں کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے، لیکن کیا موجودہ کوئی بھی لیڈر شپ اس نازک وقت پر ونسٹن چرچل، چارلس ڈیگال، چو این لائی، بن کر اپنی قوم کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکتی ہے، کیا ان میں نوآبادیات کے مخالف انقلابی راہنماوں کا وژن اور بصیرت موجود ہے، اگر ہے تو ان کو آگے بڑھ کر قیادت کی بھاگ ڈور خود سنبھالنی ہوگی۔ اس امر میں بھی کلام نہیں کہ ایک جانب ہمارا واسطہ ایک ایسی جذباتی بریگیڈ سے ہے، جو قومی مسئلہ کو نظریاتی الجھنوں میں ڈال کر اتنا سخت، اتنی مشکل بنا رہے ہیں، کہ شاید یہ راہ کے ساتھی بھی تھک کر شل ہو جائیں، ان کے حلق خشک ہو کر ان کی آوازوں کو نگل لے، تو دوسری جانب ایک لہلہاتی فصل کی بہار اپنی جگہ موجود ہے، جس میں بہت سے دیگر گمنام جرات انکار کے مجاہدوں کے ساتھ ساتھ نوجوان، بھرپور نوجوانی کا مد ہوش کر دینے والا لہو بھی شامل ہے، اور اس سے بڑا گناہ، جرم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم ایسی فصل کے ذریعہ جو سنگین رات کے سینے کو چھیر کر اس میں شگاف ڈال کر، اس سے اپنے ہاتھوں سے ایک نئی صبح خورشید کو اپنے آنگن میں اتار سکتے ہیں، کو ضائع کر دیں۔ لیکن اس کیلئے پھر وہی نزاع سامنے موجود ہے، کہ لیڈر شپ کا مسئلہ کیا ہے؟ کیا راہنمائی کے قابل ہمارے پاس ایسے گوہر نایاب موجود ہیں؟

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک سمجھتے ہیں، صرف اور صرف اپنے موقف کے ساتھ سچائی کے ساتھ ڈٹے اپنے اور نمائشی، سطحی باتوں سے گریز کرکے، لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کے چکر میں فوٹو سیشن کی بیماری سے دور بھاگنے والے (گوکہ یہ اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل بھی ہے) اور اچھا بھی ہے۔ لیکن اس سے آگے بھی تو بڑھنا ہوگا، اس سے آگے بھی تو اور بہت سی ایسی قومی جدوجہد کے شہر کی فصلیں ہیں۔ جن کو پاٹنا بھی ہوگا، کیونکہ یہ مسئلہ، ایسا مسئلہ نہیں، کہ کچھ سنگت مل کر نوالہ بنا کر لیڈر شپ کے منہ تک لے آئیں، کوئی پکی پکائی روٹی نہیں ہے، گوکہ اس مرحلہ میں چند سنگت بھی کافی ہیں، یہ سنگت اور فکری، ہم خیال دوستوں کی طرح فصل کیلئے زمین ہموار کر سکتے ہیں، اور بہت حد تک زمین ہموار ہو بھی چکی ہے، لیکن اب اس ہموار زمین میں، جس میں بیج بھی ڈالے گئے ہیں، اس میں پھل پھول پیدا کرنا بھی تو لیڈر شپ کا کام ہے، کیا ایسی لیڈر شپ جس کا حوالہ مذکورہ لکھاری کے مضمون میں دیا گیا ہے، آگے بڑھ کر خود اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے قافلہ عاشقان کو آگے بڑھانے کیلئے کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یا اسے کیا کرنا چاہیے، یہ سوال، یہ نکتہ بھی تو اپنی جگہ اہم ہے۔

ان کی اس تحریر کو ایک سنجیدہ ڈسکورس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، کیا جانا بھی چاہیے، لیکن ڈسکورس کی عمارت دلیلوں کی بنیادوں پر قائم ہو۔ بازاری، سطحی، جذبات سے مملو، دشنام طرازی اس بحث کو اغواء کر سکتی ہے، اور ہمارے ہاں، یہ کام پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگ بہت خوبی سے جانتے ہیں، مضحکہ خیز قسم کے سوالات اٹھانا اب فیشن بن چکا ہے، ایسے میں کتنے لوگ ہیں کہ اس اہم اور انتہائی موت و زیست سے متعلق جڑے سوال پر غور و فکر کی راہیں کھول سکیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ بلوچوں کی کلاسیکی لیڈر شپ اب موجود نہیں ہے، مختلف انواع کے رہنماوں کی کمی نہیں، ان کی قربانیاں، سر آنکھوں پر۔ (یہاں پر دکان دار لیڈروں، چرب زبان، پیسہ کو پوجا کرنے والے لیڈروں کی بات نہیں ہو رہی۔)

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب 2000ء کے اوائل میں بابا مری کو گرفتار کیا گیا، تو اس وقت میں نے مشرق اخبار میں پہلا انٹرویو سردار عطاء اللہ مینگل سے لیا تھا۔ اسی طرح ایک اور انٹرویو جو مشرق کوئٹہ میں شائع ہوا، یہ سابق قانون دان اور ذولفقار علی بھٹو کے اطلاعات کے مشیر طاہر محمود خان کی تھی، جس میں انہوں نے ایک نکتہ رس بات بتائی، اس زمانے کی، جب ضیاء الحق نے مجاہد بن کر افغانستان کے گھوڑے پر سوار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا، بلوچستان کے بحران نے بھٹو کو سولی چڑھایا تھا، اس زمانے کی مقتدرہ کی سوچ یہ تھی کہ جب بلوچوں کی کلاسیکی لیڈر شپ (بابا مری، شہید نواب اکبر خان بگٹی، سردار مینگل) دنیا سے رحلت کر جائیں گے تو ان کے بیٹوں سے بلوچ وسائل پر معاملہ کرنا آسان ہوگا، ایسا طاہر محمود خان نے بتایا تھا، کیا مقتدرہ آج بھی اس پر عمل پیرا نظر نہیں آتی؟ بلوچ کلاسیکی لیڈر شپ نے اپنے حصے سے زیادہ کا کام کر لیا۔ اب نیا زمانہ ہے، شناخت کی جنگ ہے، سمندر کی جنگ ہے، تہذیب کی جنگ ہے، قو م کی جہد البقاء کی جنگ ہے، جتنی بڑی جنگ ہے، اتنی ہی بڑی لیڈر شپ کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ جنگ ہشت پہلو جنگ ہے، چومکھی لڑائی ہے، لڑائی بڑی ہے تو لیڈر بھی بڑا ہونا چاہیے۔

سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ عملی جدوجہد مقدم ہے، لیکن نئے زمانے میں جنگ کے میڈیم بدل گئے ہیں، نیا زمانہ ہے، نئی جنگ ہے، صرف ہمارے خطے ہی میں نہیں، پوری دنیا ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایسے میں پرانے زمانے کی جنگوں نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے۔

اپنی سہولت کیلئے غلام داری کی تہذیب کی بات کی جائے۔ پہلی جنگ پتھر کی ٹیکنالوجی کی تھی، یہ غالباً زرعی عہد کا زمانہ تھا، دوسری جنگ لوہے کے ذریعے ہوئی تھی، پھر انجن آ گیا تھا، نوآبادیات کیلئے جنگوں کا آغاز ہوا، بجلی نے ایک اور نئی جنگ کی بساط بچھائی تھی، ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، نئی جنگ ہے، بڑی جنگ ہے۔ پروفیسر ڈھانہ نے بتایا ہے۔

ایسے میں بلوچ لیڈر شپ کیا نئے عہد کی عالمی جنگ کو باریک بینی سے جانتی ہے، کیا ہشت پہلو جنگ پر اس کے نظریے، قوم تقسیم در تقسیم ہے، جمہوریت کی باتیں بنانے والے بھی ہیں، قوم کو جذباتی تقریروں سے بے وقوف بنانے کی کوشش میں غلطان لیڈر شپ بھی ہے۔ متوسط طبقہ کا نیا نعرہ بھی چپکے چپکے لگایا جا رہا ہے، کارکنوں، عام لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولا جا رہا ہے، کچھ چالاک قسم کے لوگ بلوچ قومی جہد کو سرخ پوشاک پہنانے کی چکر میں ہیں، ایسے لوگ ایک ہی وقت میں صوفی بھی ہیں، جمہوریت کے گیت بھی گاتے ہیں، چین سے بھی یارانے رکھتے ہیں، امریکہ مائی باپ ہے۔
عملی جدوجہد پہلے نمبر کا مستحق ہے، لیکن کیا صلاحیتوں کی بات کرنا بے عملی ہے؟ کیا لیڈر شپ قربانیوں سے بڑھ کر ذہنی سروکاروں میں بھی دل چسپی رکھتی ہے؟ کیا اس کے پاس اپنے نظریے یا افکار کا ایک پورا ماڈل یا پراجیکٹ موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو اس کا اظہار کیوں نہیں ہو رہا؟

جنگ نظریاتی بھی ہے، افکار کی بھی ہے، خیالات کی جنگ بھی بہت بڑی ہے، کیا دور سے، صرف سیاسی منظر نامے کو دیکھنا، ایک آدھ انٹرویوز پر قناعت کرنا، خاموشی اختیار کیئے رکھنے سے بات بنے گی؟ یا آگے بڑھ کر اپنے افکار کو پورے ماڈل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہ ضروری نہیں کہ ہر بڑا مدبر، سیاست دان، نجات دہندہ لکھنے والا بھی ہو، لیکن اس کے جو افکار ہیں، وہ واضح ہونے چائیں، اس کو خود آگے بڑھ کر سیاست کی کمان سنبھالنا ہے، تو انتطار کس بات کا ہے؟ کیا لیڈر شپ کے پاس روایتی میڑھ لے جانے کی ضرورت ہے؟ کیا سبھی گروہوں کا اس کے ہاتھوں بیعت کرنا لازمی ہے؟

لیڈر تو خود آگے بڑھتا ہے، لہلہاتی فصل کا انتظار نہیں کرتا، اسے زمین بھی ڈھونڈنی ہوتی ہے، زمین کو ہموار بھی کرنا ہوتا ہے، اس میں بیج، پھل، پھول بھی لگانے ہوتے ہیں۔

لیڈرشپ کا مسئلہ عددی یا اکثریتی ہونا نہیں ہے، لیکن بات یہ ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کے اعتماد کو کیسے حاصل کر پاتا ہے؟ المیہ ہے کہ لیڈر شپ موجود ہے لیکن ہائبرڈ جنگوں کے، آف شور کمپنیوں کے اس جدید دور میں اس کے پاس کوئی میڈیا نہیں ہے، اس کے خیالات و افکار سے متعلق لٹریچر دستیاب ہی نہیں، یہ تو چھوٹی باتیں ہیں، ہم یہاں لینن کی بات نہیں کر رہے، حق تو ہے اس جیسی لیڈر شپ پر بات ہو، جو ایک ہی وقت میں، کمال کا مقرر تھا، بہترین تنظیم ساز تھا، اخبار بھی نکالتا تھا، جلا وطن بھی ہوتا تھا، گرفتار بھی ہوا تھا، کتابیں جنون سے پڑھتا تھا، نظریاتی مخالفوں کا جواب بھی کتابی صورت میں دیتا تھا، جرات مند تھا، عام سی زندگی کزارتا تھا۔

لیکن بلوچ، تاریخ کے دوراہے پر کھڑے خیالات کے سیلاب اور طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں، جس کا جی چاہے، اس کا دانش ور بنے، لال، پیلے، نیلے رنگ کے ٹانکے لگائے، لیکن لیڈر شپ خاموش ہے فکری مغالطوں کا فکری جواب ندارد ہے۔

دنیا کوڈ19 کے بعد نئی سیاسی صف بندیوں میں جاری ہے، بعض لوگ جمہوریت کو بے کار اور بے وقت کی راگنی سمجھنے لگے ہیں، ایسے میں ایک انتہائی اہم اسٹریجک خطے کے لیڈر کے پاس کیا ہے؟ فکری، نظریاتی، فلاسفی سوچ کیا ہے؟ قوم تو اپنی جگہ، وہ خود ان نظریاتی و فکری سیلاب کے آگے بند باندھ سکتا ہے؟ دنیا بکھر رہی ہے، نئے اتحاد بن رہے ہیں، امریکہ کلاسیکی سپر پاور بھی نہیں، کمزور بھی نہیں، ہمارے ہمسائے میں کابل کا سقوط ہو بھی ہوچکا، دنیا ایک جانب سیکولر ازم اور بنیادی انسانی حقوق کا ایک نیا چارٹر لارہی ہے، دوسری جانب قدامت پسندی بھی طاقت ور ہوتی جارہی ہے، امریکہ مائی باپ ہے، تو چین بھی کم نہیں، مشرق وسطی بدل رہا ہے، سعودی عرب بدل رہا ہے، لیکن برصغیر جسے آجکل جنوبی ایشیاء کہا جاتا ہے، قدامت پسندی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، مودی کی آمد کے بعد ہندو ازم کے وکیل سامنے آچکے ہیں، مسلمان بھی زیادہ بنیاد پرست ہوچکے ہیں، جس کے اثرات ہمسائے میں پشتونوں، سندھیوں پر پڑ رہے ہیں، بلوچ بھی نرغے میں ہے، ایران شیعہ ازم کی پرچار کو نئے سرے سے آگے بڑھا رہا ہے۔
ایسے میں بلوچ کا راستہ کیا ہے؟ بلاکوں میں بٹی دنیا، ڈیجیٹل دور، نئی مارکیٹوں کی جنگ میں نئی نوآبادیاتی نظام کے آقا ابھی مرے نہیں ہیں، غلام دار، ڈیجیٹل دور میں بھی غلامی کی تہذیب کو زندہ رکھنے میں مصروف ہے، جدوجہد کر رہا ہے۔ بلوچ کا نمائندہ کون ہے؟ ساری دنیا اپنے بکھیڑوں میں پڑی ہوئی ہے۔ چین کے اقتصادی بحرانوں کی بات ہو رہی ہے، امریکہ اپنے زخم چاٹ رہا ہے، جو بائیڈن منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ ترکی، خلافت عثمانیہ کے خواب دیکھ رہا ہے، امریکہ کے ساتھ بھی ہے، نہیں بھی ہے۔

بلوچ کسی الگ جزیرے میں نہیں رہتے، کسی نہ کسی طرف تو ہونا ہی ہے، کس طرف؟ جہاں نقصان کے اندیشے کم ہوں، شناخت کا مسئلہ سب سے اہم ہے، شناخت تو حیوانوں کیلئے بھی ضروری ہے، اگر بلوچ، شناخت سے محروم ہو جاتا ہے، تب کیا ہوگا؟ کیا کسی بھی لیڈرشپ کے پاس اس کا جواب ہے۔ فتوی صادر کرنے کی ضرورت نہیں، افکار کی بات ہو رہی ہے۔ افکار کی افکار سے جنگ ہے، لوہے سے لوہا ضرور ٹکراتا ہے، لیکن اصل جنگ تو ذہنی سروکاروں، اعصاب اور قومی نفسیات کی ہے۔ قومی نفسیات کا نباض کون ہے؟ قحط الرجال میں ایک ہی لیڈر کافی ہے، جیسے اندھیرے،سیاہ سنگین تاریکی میں ایک دیا کافی ہوتا ہے۔

جتنا بحران بڑا ہے، جتنا بحران عالمگیر ہے، اتنے بڑے لیڈر کی ضرورت ہے، میدانوں، کلیانوں میں، شاہراہوں پر تو خون بہہ رہا ہے، دنیا بلوچستان کی اہمیت جانتی ہے، لیکن نہیں جانتی تو خود بلوچ قوم۔ پتہ پتہ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے، جانے نجانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔

ساکا خان کی بات جزوی درست ہوسکتی ہے، پوری اور مکمل بات کیلئے لیڈر شپ کو خود آگے آنا ہوگا۔ تواتر کے ساتھ اپنی بات رکھنا ہو گی، جس طرح پراپیگنڈے کا اصول ہے، اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے، لیکن یہاں سچائی موجود ہے، اس کو بولنے اور بیان کرنے والا نہیں، بڑے لوگ بڑے بحرانوں میں بنتے ہیں، جتنے برے حالات ہونگے، اتنا ہی بڑا لیڈر جنم لے گا۔

لیکن صرف نعروں سے نہیں، اپنے زخم دکھانے سے نہیں، جلسے جلوسوں کی قیادت کرنے سے نہیں، اس سے بڑھ کر معاملہ کرنا ہوگا۔

لیڈر شپ کی زنبیل میں کیا کچھ موجود ہے؟ کیا زنبیل ہے بھی یا نہیں؟ افکار و خیالات کی پٹاری کھولنی پڑے گی، ڈارئنگ رومز میں بیٹھ کر انٹرویو دینے سے، 48ء کے واقعات بیان کرنے سے، انگریزوں کے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی باتوں سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔ بات نہیں بنے گی، نئی دنیا ہے، نئی دنیا کی نئی جنگیں ہیں۔

بلوچ کی معاشرت، ثقافت آج بھی چرواہا معیشت سے جڑی ہوئی ہے، افکار و خیالات کی پٹاری کھولے بغیر سطحی قسم کے دانش ور، ساری جدوجہد کو اغواء کر سکتے ہیں، تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے، سپارٹکس بھی غلام تھا۔ رومن ایمپائر بہت بڑی تھی، بڑی طاقت ور تھی، سپارٹکس کا آقا اس نوجوان کو گلیڈی ایٹر بنانا چاہتا تھا، اور اس زمانے میں ایسی انسانی لڑائیاں، اشرافیہ کو مرغوب تھیں، ان کی من پسند تفریح تھی، لیکن اسپارٹکس نے بساط کو الٹا دیا، غلاموں نے غلام داروں کو پٹخ دیا، سپارٹکس مارا گیا، لیکن بغاوت کی دیوی زندہ رہی۔

دنیا کی کتابیں، مثالوں سے بھری پڑی ہے، خود ہماری ماڈرن تاریخ بھی اسپارٹکس سے بڑھ کر ہیرو پیدا کر رہی ہے، بظاہر یہ جنگ ہارنے والے، بازی جیت رہے ہیں، لیکن جو ہو رہا ہے، خود رو ہے۔ ناکو محراب کے ساتھ صرف چند طلبہ کھڑے تھے، اس نے اپنی بات منوائی، اس کی چپل ٹوٹی ہوئی تھی، اردو میں بات کر نہیں سکتا تھا۔ لیکن وہ مثال بنا۔

لیڈر شپ کے بارے میں بحث اچھی ہے، کتھارسس بھی ہو جاتی ہے، ایک گروہ دوسرے گروہ کو نیچا دکھا سکتا ہے، لیکن قوم کا یہ مسئلہ نہیں، ڈسکورس بھی لازمی ہے، لیکن سنجیدگی کے ساتھ ہو، دلیل کے ساتھ ہو، خود رو جلسے جلوس ابتک جمہوری بچوں پر دباؤ نہیں ڈال سکے ہیں، ان کے دل خراش المیوں کے پیچھے جو صورتحال بنتی ہے، وہ سڑکوں پر آ تو جاتی ہے، لیکن اس میں بچے جمہوری کے لیڈر آنے کی زحمت بھی نہیں کرتے، آتے بھی ہیں تو وہ غیر کا سندیسہ لے کر آتے ہیں، نمبر بڑھاتے ہیں، 2023ء کے انتخابات میں سیٹ پکی کرنی ہے، پی ایس ڈی پی سے اپنا حصہ لینا ہے، ان کو کوئی چیلنج در پیش نہیں ہے، تو دنیا آپ کی بات کہاں سنے گی، دنیا بہت بڑی ہے، اس بڑی دنیا میں بڑا پیسہ ہے، آف شور کمپنیاں حکومت کر رہی ہیں، وہ آپ کی مدہم، بھانت بھانت کی آوازوں کو کہاں سننا چاہیں گے، گو کہ وہ آپ کے بحران میں اپنے مفاد کی خاطر شاید دل چسپی بھی رکھتے ہوں، ان کے پاس معلومات بھی ہوں، ان کے تھنک ٹینکس مصروف عمل بھی ہوں، وہ آپ سے زیادہ آپ کے مسئلہ کو جانتے ہوں، لیکن آپ کی اپنی آواز کہاں ہے، ایسی آواز، جسے بڑی دنیا سن سکے، آف شور کمپنیاں حکمران ہیں، پیسہ کی پوجا کرتے ہیں، ان کا دیوتا بھی ڈیجیٹل ہے، ان کے مندر بھی ڈیجیٹل ہیں، آ پ کے پاس تو اخبار بھی نہیں، ٹی وی کہاں سے آئے گا؟ بڑا میڈیا کہاں سے لاؤ گے؟

لیکن کیا لیڈر شپ یہ باتیں سننے کیلئے تیار ہے، کیا اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ ان باتوں پر کان دھرے۔

بلوچوں کی کہانی طویل ہے، الف لیلی کی ہزار راتوں کی طرح، لیکن لیڈر شپ تو ہزہائی نس بن چکی ہے، وہ ہزہائی نس رہنا چاہتی ہے، وہ کسی کو جواب دہ نہیں، اس کا کوئی رد عمل نظر نہیں آتا، ایسی لیڈر شپ کس کام کی، جس کے پاس اپنے اظہار یا کسی واقعہ پر رد عمل کیلئے پریس ریلیز لکھنے والا تک موجود نہیں۔
جتنی کہانی لمبی ہے، اس کے ابعاد بھی بہت ہیں، اس طویل داستان کا اس وقت کوئی شہرزاد بھی نہیں، ایک مضمون میں ساری باتیں سما نہیں سکتیں، مضمون آگے بڑھ سکتا ہے، لیکن کسی کے پاس کوئی خیال، فکر تو ہو، اظہار کی قدرت بھی ہو، اگر اتنا بھی نہیں، تو پھر لیڈر شپ کا مسئلہ، اس پر ڈسکورس وقت کے ضیاع کے سوا اور کیا؟ یہ مایوسی کی بات نہیں، جھوٹی رجائیت ہمارے کام کی نہیں،سوال بے شمار ہیں۔ جواب دینے والا اگر نہیں، تو پھر یہ بے وقت کی راگنی نہیں تو اور کیا ہے، کوئی ہے، جو خیال، فکر، منطق، دلیل سے لیس ہوکر اس ڈسکورس کو، کلامیہ کو، مکالمے کو آگے بڑھا سکے، میں بھلے شاہ نہیں، بڑا آدمی بھی نہیں، چھوٹا آدمی ہوں، چھوٹی سی بات کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر نہ ہو، لیکن جن کے پاس اس بات کا سر پیر بھی ہے، پورا چہرہ بھی ہے، وہ کہاں ہیں؟ ان کو خود آگے آنا ہوگا،جب کوئی آگے آئے گا، تب کی تب دیکھی جائے گی۔


SHARE
Previous articleتربت سے دو افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد
Next articleپاکستان فوج کیجانب علاقوں کو جبری خالی کرانے و جبری گمشدگیوں کیخلاف کراچی میں احتجاج
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔