کوہِ سلیمان کے چرواہے کی زندگی ۔ مرتضیٰ بزدار

528

کوہِ سلیمان کے چرواہے کی زندگی

تحریر:مرتضیٰ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

شہوانک (چرواہے) بلوچی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب وہ انسان جو عام طور پر مویشیوں کو چراتا ہے، اور انکی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اسکا ذریعہ معاش یہی مویشیاں یعنی بھیڑ،بکریوں پر منحصرہے۔

دنیا کی تاریخ کو اگر سر سری دیکھا جاۓ تو مختلف علاقوں اور قوموں کی حالتِ زندگی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف شاید نہ تھیں۔ جب تک دنیا ترقی کے دور سے بہت دور تھا۔ تو سماج میں برابری تھا لوگ ایک جیسے رہ رہے تھے۔کوئی اعلیٰ ادنیٰ نہیں تھا۔سادہ زندگی تھی اور ضروتیں بہت کم تھیں جو اچھے طریقے سے پوری ھوتی تھیں۔کسی قسم کی پریشانی نہ تھی سکون تھا امن تھا ۔ جسے سوشیالوجی میں simpal life کا دور کہا جاتا ھے۔ اسی کے ساتھ جب انسان نے ایجادات شروع کیے جدت آگئی لوگوں کی زندگیاں محدود ہونے لگیں، خاندانی زندگی پر اثرات پڑنے لگے۔لوگ بجائے اجتماعی کے انفرادی طور پر سوچنے لگی۔وسائل کم اور ضرورتیں بڑھنے لگیں۔ یوں انسان نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا شروع کیا ایک دوسرے کے خلاف بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ۔ نفسا نفسی کا عالم برپا ہوگیا۔انسانوں کی جگہ مشینوں نے لے لی۔ زندگی کے راہوں نے ایک اور جانب رخ موڑ لیا۔ تو ہر آدمی اپنے کل کے بارے میں سوچنے لگا۔ نفرتیں بڑھ گئیں،پیار ختم ھونے لگا اور سماج یکسر بد ل گیا۔

کوہِ سلیمان کے شہوانک (چرواہے) کی زندگی پر بھی ان بدلتے حالات کے اثرات مرتب ہوئے ۔ کل کی بات چھوڑیں آج بھی حالات وہیں کے وہیں ہیں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہاں کچھ عرصہ ھوا کہ چند ایک لوگوں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دیا۔ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہیں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔عورتوں کے تعلیم علاج اور دوسرے بنیادی سہولیات کےلیے جدوجہد کرنے لگے ہیں ، اَب انھیں بھی ہوش آنے لگا کہ یار ہمیں تو دنیا کے ساتھ چلنا چاہیے تھا،اس کا مقابلہ کرنا تھا لیکن کیا کریں دیر کر دی۔ (دیر آمد درست آمد)۔

چونکہ ہمارا موضوع تو کوہِ سلیمان کی شُہوانکی زندگی پر ہے ۔ جسے نہ تو دنیا کی تبدیلیوں سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی سیاسی مسائل سے۔ وہ اگر شہر میں ہونے والے ہنگامے کا کبھی دریافت بھی کرلے تو صرف ایک ہی جملہ ادا کرتا ہے کہ(اڑے شہراآ مڈی گرانوں یا اَڑزانوں، مالاآ بہائے استؤ چِینا) یعنی شہری زندگی سے اسکا کوئی خاص تعلق نہیں سواۓ نرخوں کے اتار چڑھاؤکے اور مویشیوں کے منڈی میں قیمت کے علاوہ کچھ غرض نہیں۔

شہوانک کی بھی کیا زندگی ھے، کیا خوبصورت زندگی ہے، کیسے کیسے اصول ہیں، وہی سادہ زندگی وہی صبح کا وقتی اٹھنا۔ اپنے مویشیوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں پہ لے جانا۔اور وہاں سکون سے بیٹھ کر سوچنا “لیلڑی” کی گیت گانااور اپنے دل کو سکون پہنچانا۔ تروتازہ ھواؤں سے لطف اندوز ھونا۔اور پھر شام کو اپنے مویشیوں کے میٹھے میٹھے گھنٹیوں کے ہلکی ہلکی آوازوں کے ساتھ آرام گاہ تک لوٹ آتا ھے۔اپنے ہم سفر مویشیوں کی گنتی کرتا ھے ان کیلئے کتنا محبت ھے اسکا کوئی پیمانہ نہیں۔

اگر ان میں کوئی گھر نہ لوٹا ہو تو وہ واپس جا کر اپنے دن گزارے جیذ (جگہ) میں تلاش کرتا ھے ، بے تاب ھوتاھے جب نہ ملے تو اپنے ہم پیشہ دوسرے شہوانک سے بذریعہ(گؤنگ) یعنی اونچی آواز میں نام لیکر اسکو پکارتا ھے اور دریافت کرتا کہ (مئ سُہر گوشئیں میش گارئیں تؤ نہ دیثاآ ) میرا وہ سرخ کانوں والا بھیڑ گم ھے آپ نے نہیں دیکھا آج وہ گھر نہیں آیا۔ بھلا کوئی اس قدر بھی زندگی کےاصولوں اور قوانین میں محو ھو سکتا ھے کیا؟

اس نے مویشیوں کے مخلتف نام رکھے ھوتے ہیں وہ ان ناموں سے انکو پکارتا ھے۔آواز دیتا ھے۔اور قدرت کا کرشمہ دیکھیں جانور بھی اسکی بات کو سمجھتے وہ اس شہوانک کی آواز پر عمل بھی کرتے ہیں اور واپس لوٹتے ہیں۔

صبح پھر اسی اصولِ زندگی کا آغاز کرتا ھے واپس اپنے کل والے جیذ(جگہ) کو پہنچ جاتا ھے اور پھر لیلڑی کے گیت سے روح کوتسکین پہنچاتا ھے۔

نئی ایجادات نے اس کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اس نے موبائل کا استعمال شروع کیا ہے۔ وہ کال پیکجز کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔ وہ مختلف کمپنیوں کے کوڈ یاد کرتا ہے۔ البتہ وہ سوشل میڈیا سے دور ھے۔ وہ جیو نیوز نہیں سنتا ۔ وہ فیس بک کے جھوٹے دعوؤں کا عادی نہیں وہ سوشل میڈیا کے جذباتی شعر و شاعری سے ناواقف ہے۔

اگر آپ کو اتفاق سے کبھی اس کے ساتھ بیٹھنے کا اور گفتگو کرنے کا موقع ملے تو غور سے سننا کہ وہ کتنا سادہ اور روایتوں میں گم ہے۔ اتنی سادہ باتیں کرتا ہے، جن پر یہ شہری بابو یقین نہیں کریں گے۔ لیکن اب اس کی زندگی میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں وہ اپنے بہت سے روایات پہ سمجھوتا کر چکا ھے۔ اب وہ دنیا میں ھونے والے تبدیلیوں کو دل ہی دل میں قبول کرنے لگا ہے۔ اسے بھی یقین ھونے لگا ھے کہ دنیا میں بہت کچھ باقی ھے جو ابھی تک وہ نہیں جانتاھے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ شہوان کا بیٹا کبھی بے روز گار نہیں ھوتا اسکا بچہ جب چلنے کے قابل ھوتا ھے تو باپ(شہوان) اسکو اپنے ساتھ پہاڑوں پہ ٹرینگ دیتا ھے۔ اور وہ جوان ھوتے ہی اپنے ذریع معاش کیلئے ایک الگ ریوڑ کو سنھبالتا ھے۔ اپنے شہوانی زندگی کا آغاز کرتا ھے۔ اور یہی سلسلہ انکا نسل در نسل چلا آرہا ھے۔ یعنی انھیں سرکاری نوکری کی اتنی ضرورت نہیں ھوتی۔

یہاں ھم نے مرد یعنی شہوانک کی زندگی کا ذکر تو کیا ھے۔ اب اگر کوہ سلیمان کے شہوانک سے جڑی عورت کی زندگی پہ چند جملے نہ بولیں تو یہ گناہ کبیرہ ھوگا۔ وہاں عورت آج بھی بِے بس ھے لاچار ھے وہ اپنے زندگی کے فیصلے کرنے کا حق آج بھی نہیں رکھتی اسکی شادی کبھی بھی اسکے مرضی سے نہیں ھوتی جو بڑوں نے کہا بس اسی کو قبول کرتی ھے۔ بات کرنے کا سوال کرنے کا مزاحمت کرنے کا آج بھی اسکے پاس کوئی اختیار نہیں ھے ۔ وہ اندر ہی اندر اپنا سب کچھ سہہ لیتی ھے۔ برداشت کرتی ھے۔تماشا نہیں بناتی گھر والوں کا۔ وہ باپ، بھائی اور شوہر کیلئےکوئی ہنگامہ کھڑی نہیں کرتی کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات پچپن سے کوڈ کر دی گئی کہ اگر تم نے کچھ بولا تو مردوں کی عزت پامال ھوجاۓ گی۔ لہذا خاموش رہنے کے علاوہ تمہیں کوئی حق نہیں۔عورت آج بھی علاج کی سہولت سے محروم ھے وہ اپنا بیماری کھل کے نہیں بتا سکتی ۔وہ دورنِ زچگی مر جاتی ھے وہ حمل کے دوران مختلف تکلیفیں برداشت کرتی ھے۔ اسکی خوراک صرف اور صرف دو وقت کی روٹی ھے اُسی پہ انحصار کرتی ھے۔روٹی بھی پیٹ بھر کر قسمت والوں کے نصیب میں ھے۔

وہ صبح سویرے اٹھتی ھے مویشیوں کے چارے کا بندوبست کرتی ھے۔بچوں اور شوہر کے لیے کھانا تیار کرتی ھے پھر مشکیزہ اٹھا کے میلوں دور چشمے یا کچے تالاب سے پانی بھر کے لاتی ھے ۔ پھر پہاڑ میں جاکر سبزہ کاٹ کر لاتی ھے۔تھکی ہاری عورت جب گھر لوٹتی ھے تو مشکل سے کسی کے منہ سے اس کیلئے دو میٹھے بول نکلتے ہیں ۔لیکن کیا کرے روایات میں جکڑی ہے کچھ بول نہیں سکتی ، سب کچھ ذہن نے پہلے سے قبول کیا ھوتا ھے ، اس کے لاشعور میں یہ تمام چیزیں موجود ھوتی ہیں۔ شاید اس لیے وہ اپنے بارے میں سوال بہت کم کرتی ھے۔ وہ ان تمام باتوں کو اپنا مقدر سمجھتی ھے۔ وہ سمجھتی ھے شاہد قدرت نے ھم عورتوں کے نصیب میں ازل سے یہ سب کچھ لکھا ھے۔کیونکہ وہ دوسری دنیا سے بہت دور ھے وہ اپنے حقوق نہیں جانتی اسے معلوم نہیں کہ باہر کی دنیا میں عورت کس قدر آزاد ھے۔

آج عورت اپنے بارے میں ھر فیصلے کا اختیار رکھتی ھے۔ وہ اپنی شادی،خوشی،غمی،تعلیم، کاروبار خرید وفروخت کا قانوناً حق حاصل کر چکی ھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ عورت کو یہ حقوق دنیا والوں نے یوں نہیں دیے۔ عورت نے جدوجہد کی مشکلات جھیلیں جنگوں میں حصہ لی اپنے مقدر کی ازل سے تبدیلی کیلئے ہمیشہ سے عملی مزاحمت کی اور آج تک کرتی آرہی ھے۔

لیکن افسوس ہمارے کوہِ سلیمان کی عورت ان تمام باتوں سے ناواقف ھے اس کیلئے یہ فلمی باتیں ہیں ۔ لیکن یہ سب تعلیم و شعور نہ ھونے کی وجہ سے ھے۔ جہالت ھے، ناخواندگی ہے، رویات کی پاس داری ھے کہ جی عورت ہماری عزت ہے اسے ھم تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیسے شہر میں یا گاؤں کے سکول میں بھیجیں وہاں سب اجنبی لوگ ہیں ،وہ ماسٹر غیر ھے۔ پتا نہیں کیسے کیسے بےھودہ خیالات آتے ہیں ذہنوں میں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہی عورت جب پہاڑوں پہ مویشی چرانے جاتی ھے اکیلی ھوتی ھے۔غیر محفوظ ھوتی، دوسروں کے نظروں میں ھوتی ھے، ھر وقت اسکی عزت خطرے میں ہے۔ کئی معصوم عزتیں ان جنگلی درندوں کے ھاتھوں پامال ھوچکی ہیں۔ لیکن وہاں ہمارے لوگوں کی غیرت، اور روایات، سب خاموش ہو جاتی ھے۔ پھر معاملہ عورت پر ہی آجاتی ھے۔ اُس پر کاروکاری(سیاہ کاری) جیسے ،الزامات لگتی ہیں وہ قتل ھوجاتی ھے، یا پھر فروخت کر دی جاتی ہے ۔غیروں کے ہاں سودا ھوجاتی ھے۔ زندگی بھر کیلئےغلام بن جاتی ھے، اپنے ماں باپ بھائی بہن سب رشتوں سے ہمیشہ کیلئے دور ھوجاتی ھے۔اجنبی بن جاتی۔ ان تمام مشکلات کو جڑ سے ختم کرنےکیلۓ علم و شعور کی ضرورت ھے جس کیلئے کوئی اقدام ابھی تک نہیں ہو رہا ہے۔

ماضی میں ہمارے بلوچی روایات میں عورت کو بہت سے مقام حاصل تھے جنہیں فراموش کرنا زیادتی ھوگی ۔ جیسے جب دو فریق آپس میں لڑ رہے ھوتے تو جب کوئی عورت درمیان آ جاتی تو وہ لڑائی ختم کر دیتے۔عورت کے کسی کے گھر میں جانے سے قتل یعنی خون معاف کیے جاتے ہیں اور ایسے بہت سے روایات اب موجود ہیں لیکن سماج میں لالج اورذات پرستی اس قدر بڑھ گئی کہ رویات پہ عمل کرنا شاہد بہت مشکل ھوگیا ھو لیکن ناممکن نہیں بلوچی کوڈ آف لائف میں آج بھی موجود ہیں بشرط کوئی کوئی اس زندگی کو اپنانے کیلئے تیار ھو۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ھے کہ اب ھم اس مقام سے بہت دور چلے گئے اب ایک سوچ نے جنم لیا ھے جس مقصد صرف دولت کمانا ھے چاہے وہ کسی بھی طرح میسر ھو۔ اسلیئے اب بلوچ سماج میں عورت کا وہ مقام نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔ پروفیسر فاروق بلوچ اپنی کتاب “بلوچوں کی رومانوی داستانیں” میں بلوچ روایات میں عورت کا احترام بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ” ہمارے ہاں عورت کے احترم کا یہ عالم ھے کہ اگروہ کسی جاری قبائلی جنگ میں دونوں فریقین کے درمیان میں آجائے تو وہ جنگ رک جاتی ہےاور ٖفریقین مزید خونریزی کیے بغیر اپنے اپنے راستوں پر ھولیتے ہیں۔اگر عورت ساتھ ھو دشمن پر حملہ نہیں کرتا۔اگر عورت اپنا دوپٹہ کسی مرد کے پیروں میں رکھ دے تو خون بھی معاف کر دیتا ھے۔الغرض ایسی ھزاروں مثالیں بلوچ تاریخ میں تحریری صورت میں ملتی ہیں”۔

یہ تمام رسمیں سلیمانی بلوچوں میں ابھی زندہ ہیں۔لیکن ابھی تک عورت کے کئی بنیادی حقوق ہیں جن کا ہمارا سماج اب بھی مقروض ھے۔ان قرضوں کب اور کون ادا کرے گا؟ اس سوال کا جواب مستقبل پہ ھے کہ بلوچ کی سیاست اور تحریک کس جانب رُخ موڑے گا۔۔۔ آخر میں ایک بلوچی زبان کا مصرہ۔— “یوسفءَ ثانی کوہ سلیمانئیں
حُسن چئے لوٹئ مصر بازارءَ”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں