بلوچستان میں امن و امان
تحریر:سعید نور
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان شروع دن ہی سے دنیا کے ان بد نصیب خطوں میں سے ایک رہا ہے جہاں بد امنی ، خون ریزی ،ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان ہر گزرے دن ایک نئے انداز میں تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے مگر المیہ یہاں یہ رہا ہے کہ اس بد امنی اور ظلم و بربریت کے مارے مظلوم اور بے بس ماوں ،بہنوں اور ضعیف العمر احتجاجی افراد کی چیخ و پکار بےحس حکمرانوں تک پہنچ تو جاتی ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
گزشتہ دن بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں موجود بلوچستان کے مختلف حلقوں سے ایلکٹڈ/سلیکٹڈ ممبرز کے تقریروں کو سُن کر حسب ِ معمول ممبرز کی اہمیت و حیثیت اور اوقات کا اندازہ ہر زی شعور بخوبی لگا سکتا ہے۔
اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مقصد موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا تھا مگر سودا بازی اور ضمیر فروشی کی نہ رکھنے والی سلسلہ جو ہنوز جاری ہے، کی بدولت اسے اگلے سیشن یعنی 25 تاریخ تک ڈیلے کردیا گیا۔ غیر حاضر ارکان کو شروع میں اسمبلی کے فلور پر حکومت کی طرف سے سازش اور “اغوا” قرار دیا گیا مگر آہستہ آہستہ مسنگ ارکان کا منظر عام پر آنے کے بعد پتہ چلا کہ معاملہ طبعیت کی خرابی اور دم درود کے لیے جانے کا تھا۔جس کا اظہار مسنگ ارکان خود کر چکے ہیں جس سے پارلیمانی وفاداریوں اور ضمیر فروشی کا تسلسل واضح ہوجاتی ہے۔
اس تحریک کے بعد ضمیر فروشی اور منافقت ایک بارپھر عروج پر ہے اور مزے کی بات یہ کہ اسمبلی کے آج کے اجلاس میں مختلف ممبرز نے سودا بازی کی گندگی کے ڈھیر پر سفید پوش ڈالنے کی بھر پور کوشش کی اور باربار اس جملے کو دوہرایا کہ ” سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا یے نہ دشمن” اسطرح ایک دوسرےکی تاریخی اتحادی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے پوائنٹ سکورنگ کی گئی جبکہ طعنہ بازی کا نشانہ اکثر بلوچستان نیشنل پارٹی رہا کیونکہ کل تک باپ پارٹی کا شدید حریف تھا جبکہ آج اس کا اتحادی بنا بیٹھا ہے بقول خالق ہزارہ کہ ان کے پارٹی ممبر کے حق میں ووٹ کے لیے بی این پی نے انہیں اس لیے انکار کیا کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی باپ کا اتحادی تھا مگر آج بی این پی خود باپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ خلیل جارج نے اسی اجلاس میں موجود تمام اسمبلی ممبرز کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہاکہ “آج منافقت کی انتہا ہے”
ان سب ممبرز کے لیے ایک دوسرے کی منافقت ذاتی مفادات اور شخصی پسند و ناپسند کے لیے تھا نہ کہ قومی و مجموعی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بی این پی کے ممبرز احمد نواز بنگلزئی اور شکیلہ نوید دہوار کی جانب سے سریاب اور سبزل روڈ منصوبے کی مخافت اور ریجکشن تھا جبکہ احمد نواز اور شکیلہ نوید کو عام عوام سریاب کی ترقی کا نمائندہ اور ترجمان کہتے نہیں تھکتے۔ شاہد اب ان دو اراکین کا گزر بسر سریاب سے نہیں ورنہ ایمبولنسز کا گھنٹوں ٹریفک پھنس جانا جس سے کئی قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کا خدشہ انہیں ہو ہی جاتا جبکہ دیگر تکالیف اور سریاب کے لیے ان کی زیرو ڈیلیوری اپنی جگہ۔
خیر اب آتے ہے ایک اور منافقت پر مبنی دلچسپ لطیفے کی طرف جسے سن کر میں اسمبلی میں قہقہہ لگا نے سے قاصر رہا جس کے دو وجوہات تھے پہلا یہ کہ اسمبلی کو مچھلی بازار بنانے کا حق وہاں موجود الیکٹڈ/سلیکٹڈ ممبرز کے علاوہ کسی کو نہیں دوسرا یہ کہ اسے سن کر فورا مجھے معصوم بلوچ شہدا اور لاپتہ افراد یاد آگئے۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ چئیرمین ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی و کھیل وثقافت کے وزیر عبدالخالق ہزارہ کا کہنا ہے کہ “آج بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے حالات 99% بہتر ہے۔ جس کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب اور ان کی پارٹی کو جاتا ہے۔”
خالق ہزارہ کو ایک وزارت کا چسکا کیا لگا کہ وہ بلوچستان کے مظلوم و محکوم قوم کے دو معصوم میتوں کو عددی حوالے سے رد کرتے ہوئے حالات کو قدرے خوشگوار و پر امن قرار دے بیٹھے۔
قصور خالق ہزارہ کا نہیں یہ تو تاریخی المیہ رہا ہے کہ بلوچوں نے بلاتعصب ، رنگ و نسل سے بالاتر ہر بے گناہ کے قتل پر واویلا کیا مگر بدلے میں اسے کسی قوم، طبقے یا فرقے سے خاطر خواہ ہمدردی نصیب نہیں ہو پایا۔
جب کسی پنجابی کا خون ناحق بہا تو بلوچ جان ہتھیلی پر رکھ کر ظلم کے خلاف چٹان بنا۔ جب کسی پشتون کا خون بہا تو جان کا نظرانہ دینے ظالم کے خلاف بلوچ سڑکوں پر نکلے۔
جب کبھی بھی کسی ہزارہ کو موت کا نشانہ بنایا گیا تو سب سے پہلے جانی و مالی قربانی کے لیے پیش پیش بلوچ رہا اس کے علاوہ دیگر اقلیتی اقوام میں سے جب بھی کئی پر کوئی ظلم و ستم ہوا تو بلوچ بہادری سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ افسوس ! جب بلوچ ماوں بہنوں ، بیٹیوں حتی کہ معصوم بچوں بچیوں پر ظلم کی انتہا ہوتی ہے تو ہر طرف خاموشی پھیل جاتی ہیں ۔ چند روایتی جملوں اور بیانات کے علاوہ غیر اقوام سے کچھ زیادہ امیدیں نہیں ہوتی حد تو یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ان سے اکثر تلخ باتیں سننے کو ملتا ہے۔
کیاخالق ہزارہ بھول گئے کہ انہی کے کمیونٹی کے 10 کان کنوں کو مچھ کے علاقے گیشتری میں مسلح افراد نے کس کے دور حکومت میں حملہ کر کے قتل کیا ؟
کیا خالق ہزارہ کو واقعی پتہ نہیں کہ انہیں کے کمیونٹی کے21افراد بلوچستان میں ایک ہی روز دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں ہلاک اور 51 افراد کس دور حکومت میں زخمی ہوئے تھے ؟
یہ اور دیگر کئی واقعات جن کے رونما ہونے کے بعد بلوچ قوم آپ کے شانہ بشانہ آپ کے ساتھ دن رات آپ کے ساتھ انصاف کے لیے لڑتے رہے۔
آپ کو اگر ان کا علم نہیں تو ہم کیسے آپ کو کہیں کہ
آپ کے نناوے فیصد امن والے دور میں بلوچ نسل کشی اپنے شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں جس کے لیے کمسن رمیز خلیل، بلوچ ماں تاج بی بی ، ملک ناز ، کلثوم و حیات بلوچ کی تازہ مثالیں موجود ہیں۔
اس کے برعکس بلوچ حلقوں میں آپریشنز اور لاپتہ کرنے کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے پارہا۔یقینا وزارت کے نشے میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی شاہ میر زہری اور کزن مرتضیٰ زہری کی جبری گمشدگی آپ کے علم میں نہیں رہا اور نہ ہی آپ کو ماڈل پبلک ہائی سکول کے استاد قاد استاد قادر زہری ,سماجی کارکن عرفان زہری اور ساتھیوں کی گمشدگی کا درک لگا ہو۔
اس کے علاوہ ہوشاپ کے دو معصوم بچوں کا قتل جسے آپ کا بڑے بے ایمانہ انداز میں اپنے آقا جام دیگر کی چاپلوسی کی خاطر محض “دو لاشیں” کہہ کر جٹھلا دینا یقینا نا قابل برداشت عمل ہیں۔
اگر بلوچستان میں رونما ہونے والے سینکڑوں واقعات میں سے ان چند واقعات کے یاد دلانے کے بعد بھی آپ کو بلوچستان میں امن و امان 99% بہتر لگنے لگے تو آپ کو فاطرالعقل یا لالچی انسان کہنا ہی مناسب ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں