تخمِ آزادی – برزکوہی

847

تخمِ آزادی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

اٹھارویں صدی کے روشن خیال تاریخ دان یقین رکھتے تھے کہ تاریخ آزادی کی طرف پیش رفت کی کہانی ہے۔ وہ ایمانوئل کانٹ کے ان الفاظ کو وزن دیتے ہیں کہ “آزادی کا بیج ہمیشہ زندہ رہتا ہے، ہر انقلاب کے ساتھ مزید ترقی کرتا ہے، اور بعد میں اعلیٰ درجے کی بہتری کا راستہ تیار کرتا ہے۔”

جب جبرکا دور ہو، تو ہمیں کون قائل کر سکتا ہے کہ آزادی چیزوں کا فطری طریق ہو سکتا ہے؟ جب مسلسل جنگیں ہوں، تو کون ہمیں قائل کر سکتا ہے کہ امن عام اور آزادی حاصل ہو سکتا ہے؟

انقلاب و آزادی کا سفر حالات و واقعات اور گردوپیش سے حاصل مواقع کا محتاج نہیں ہوتا، ترقی و آزادی کی جانب سفر، تاریخ کے بہاو کا فطری راستہ ہے۔ کامیابی کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس فطری بہاو پر پورے یقین کے ساتھ عمل ہو اور مصمم یقین کے اس چنگاری کو اپنے اندر زندہ رکھا جائے، چاہے حالات حق میں رہیں یا پھر آپکے مخالف۔

آزادی کا یہ چنگاری نیلسن منڈیلا میں ضرور رہا ہوگا، جس نے بالآخر پابند سلاسل رہ کر آزادی خود سے زیادہ طاقتور اپنے جیل کے پہرے داروں سے حاصل کی اور یہ یقین ضرور فلپائن کے “کورازون ایکینو” میں رہا ہوگا، وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی بات سن کر ایک ناممکن آزادی کا منصوبہ بنایا اور اسے پیلے رنگ کے لباس میں انجام دیا۔

دنیا دوسری جنگ عظیم کے تباہ کاریوں سے بچ گئی اور ہٹلر کے جرمنی کو شکست دی، وہ ہٹلر جو ناقابل تسخیر لگ رہی تھی، وہ شکست کھا گیا۔ ملبے سے ایک “ولی برینڈٹ” اور ایک “کونراڈ ایڈناؤر” نکلا، جنہوں نے ایک آزاد سماج کی بنیاد رکھی۔ ہولوکاسٹ سے اسرائیل کی ریاست آئی، آزاد اور جمہوری، خواہ متنازعہ کیوں نہ ہو۔

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں کمزور نے حالات و واقعات کے مخالفت کے باوجود سراسر اپنے ہمت اور عزم کی وجہ سے خود سے کئی گنا بڑی طاقتوں کو شکست دیکر اپنی آزادی کی حفاظت کی۔ مشہور عالم “جنگ کراہے” ہو یا “اگنیکورت کی جنگ”، “ویکتوف ہِل کی جنگ” ہو یا پھر سولہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے طاقت و حشمت کا مقابلہ کرکے مالٹا کا کامیاب دفاع کرنے والی مالٹائی غیرتربیت یافتہ چھوٹا سا دستہ ہو، جس کے بارے میں والٹیئر نے کہا تھا کہ ” تاریخ میں کوئی بھی جنگ مالٹا کے دفاع کی جنگ سے زیادہ یاد رکھا نہیں جائے گا۔” یہ واقعات یاد دلاتے ہیں کہ “آزادی کا بیج ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔”

جب رواں بلوچ قومی تحریک کا آغاز ہوا، تو سیاسی سرکلوں اور سنجیدہ عوامی حلقوں میں جب کبھی آپ یہ بحث چھیڑتے کہ رواں جنگ کو ہمیں اپنا جنگ سمجھ کر اس میں باقاعدہ شامل ہونا ہے یا پھر اس قومی جنگ کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرنی ہے، تو پھر اکثر کئی سولات، خدشات، تحفظات اور امکانات کے ہمراہ ایک سوال و خدشہ ہر ذہن میں موجود ہوتا اور اسکا بار بار اظہار کیا جاتا کہ لوگ لڑینگے، قربانی دینگے، مرینگے اور مارینگے لیکن جنگ محض ایک طبقے کے ہاتھ میں ہے، جب بھی وہ طبقہ چاہے گا بٹن دبا کر جنگ ختم کردیگا، پھر اس دوران جو قربانیاں دی گئیں، جو لوگ متاثر ہوئے، جن کا نقصان ہوا، سب بے سود ثابت ہوگا۔ اس سوال و خدشے کے تناظر میں آج اندازہ ہوتا ہے کہ جس انداز میں باقاعدہ لوگوں کو جنگ میں شامل ہونا چاہیئے تھا وہ نہیں ہوسکے۔

اس وقت بھی آج کے ہی طرح ان سوالات اور خدشات کے جواب میں دلائل یہی تھے کہ یہ جنگ اب ایک فرد یا ایک طبقے کے ہاتھ میں نہیں کہ جو جب بھی چاہے بٹن دبا کر جنگ کو ختم کردے۔ اب یہ جنگ تنظیموں کے ہاتھ میں ہے اور ادارجاتی شکل میں ڈھل چکی ہے اور آگے بھی چلے گی بلکہ قومی آزادی تک جاری رہیگی۔

کس حد تک لوگ ان تاویلوں پر بھروسہ کرتے تھے یا نہیں وہ ایک الگ بحث ہے، مگر آج یہ دلیل اور یہ حقیقت سچ ثابت ہوچکی ہے کہ اب جنگ تنظیم لڑرہے ہیں۔ اب یہ رُکے گی نہیں آزادی تک جاری رہیگی۔ ماضی قریب میں لوگوں کے اذہان میں جو خدشات و تحفظات تھے، وہ تحفظات اگر پوری طرح ختم نہیں ہوئے لیکن ابھی انتہائی ضعیف اور کمزور شکل میں کچھ حد تک شاید موجود ہوں۔ جس کا واضح ثبوت بلوچ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ فکر کے لوگوں کا جنگ آزادی میں جوق در جوق شمولیت اور دوسری طرف نوجوانوں کی قربانی دینے اور جنگ میں خطرہ مول لینے کا فیصلہ ہے۔ یہ قربانیاں ان امیدوں و توقعات سے پیوست ہیں کہ ابھی یہ جنگ آزادی تک جاری رہیگی، اور قربانیاں رائیگاں نہیں ہونگی۔

رہی بات دوسرے اہم سوال کی، تو جب بھی علاقائی حالات تبدیل ہونگے، خاص طور پر افغانستان میں جیسی تبدیلی رونما ہوئی تو بحثیت ہمسایہ ملک ہمارے جنگ پر اثرات ضرور مرتب ہونگی۔ افغانستان کے حالات کی وجہ سے ماضی میں جس طرح جنگ سرد مہری کا شکار ہوا، اسکے نتائج سے لوگوں کے ذہنوں میں خدشات، سوالات، امکانات اور خوف و وسواس اب بھی موجود ہیں۔

ماضی کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ماضی سے ہمیشہ کچھ حاصل کرنا چاہیئے لیکن ماضی کو حال سے جوڑنا اور حال کو مستقبل سے جوڑنا اور ہوبہو وہی مثبت یا منفی نتائج کا توقع رکھنا منطق و سائنس کے کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔

آج افغانستان کی شکل میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور آگے بھی ایسی تبدیلیاں و چیلنجز ہمارے راستے میں آتی رہینگی لیکن ہم بلوچ بحثیت جہدکار یا جہدوجہد سے وابستہ لوگ کیا سوچتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں اور کیا ادراک رکھتے ہیں؟ میری رائے یہ ہے کہ جب خطے میں امریکہ سمیت پورا نیٹو عملاَ موجود تھا تو اس وقت خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر خوشی سے بغل بجانا کہ امریکہ بابا آئیگا آزادی لائے گا سوفیصد غلط تھا اور آج جو لوگ امریکہ کے واپسی کو بلوچ تحریک کا انجام گردانتے ہیں وہ بھی غلط ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ جنگ جب شروع ہوئی تو امریکہ اس وقت افغانستان اور خطے میں موجود تھا نہیں، تو پھر کیسے ایک بڑے تحریک کا آغاز نائن الیون سے قبل ہی گذشتہ صدی کے آخر میں ممکن ہوئی؟ یا پھر کیا امریکہ اس وقت پیغام دے چکا تھا کہ بلوچ بھائی آپ لوگ جنگ شروع کردو، ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے ہونگے پھر ہم افغانستان آکر آپکی معاونت کرینگے اور پھر امریکہ جب افغانستان میں تھا بھی تو اس نے کیا خاک بلوچ قومی آزادی کی جنگ کو سپورٹ کیا؟

اس وقت جب جنگ شروع ہوئی تو کیا کسی بھی لیڈر یا جہدکار نے ایسا دعویٰ کیا کہ “آو آزادی کی جہد میں شامل ہوجاو، دشمن کے خلاف لڑو، اگر امریکہ افغانستان سے چلا گیا یا ہماری معاونت نہیں ہوئی تو پھر ہم جنگ کے دوکان کو تالا لگا کر واپس لوٹ آئینگے؟” میرے خیال میں نہیں، اگر اس وقت بلوچوں کو کوئی ایسا کہتا، کوئی بھی بلوچ جنگ میں شامل ہوکر اپنا خاندان، گھر، کاروبار، ملازمت، تعلیم اور جان قربان نہیں کرتا۔ آج سب قربانیاں دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں صرف قومی آزادی کی امید و ارمان کو لیکر قربان ہورہے ہیں تو پھرکیوں دنیا و امریکہ اور افغانستان کے حالات کے رحم و کرم پر پورے آزادی کی جنگ کو داوؑ پر لگائیں؟

کوئی بھی ذی شعور انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ خطے میں رونما ہونے والے اچھے یا برے تبدیلیوں سے بلوچستان، بلوچ قوم اور بلوچ تحریک متاثر ہوگا، بالکل متاثر ہوگا، پھر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ سے بھاگ جانا اور جنگ کو ختم کرنا ہے۔ بلکل، جنگ میں کبھی دو قدم آگے، ایک قدم پیچھے والی حکمت عملیاں ہوتی ہیں لیکن یہ فیصلہ تنظیمی حکمت عملی کے تحت ہوتے ہیں، یہ فیصلے ہوٹلوں، پارک و فٹ پاتوں پر بیٹھ کر دودھ پتی کی چسکیاں اور سگریٹ کی لمبی کش لگاکر نہیں ہوتے۔

یہ فیصلے وہ کرتے ہیں، جو عملی طور پر جنگ و جہد میں شامل ہیں، ان کو اپنی جنگ سے لیکر پورے خطے میں جو ہورہا اور جو ہونے والا ہے، ان سب کا ادراک ہوتا ہے۔ جنگ سے دور، عمل سے دور، خدا کرے کوئی افلاطون بھی ہو آپ سمجھ لیں وہ جنگ کے بارے میں صرف خیالی پلاوؑ پکا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ بس اس کے سارے تجزیے، تبصرے اور پیش بینی، اندھیرے میں تیرچلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ماضی میں جب پرنس آغا عبدالکریم یا نواب مری صاحب واپس ہوئے، اس وقت اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے، باقی سب چھوڑیں بلوچ قومی شعور اور سوچ کی سطح اس وقت کیا تھا اور آج کیا ہے؟ نواب صاحب نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ واپسی پر پتھربرسائے جانے کی توقع کررہے تھے لیکن استقبال کرنے والے پھول نچھاور کررہے تھے۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کی شعور و سوچ کی سطح کہتا ہے کہ اگر کوئی ہتھیار پھینک کر واپس جائیگا تو پھول نہیں پتھر سے اسقبال ہوگا۔

حالات بدل گئے ہیں، نوجوانوں کی ہمت، شعور، جذبہ اس حد تک بلند ہے کہ وہ فدائی سربلند کی طرح اپنی جان خود خوشی سے قربان کررہے ہیں اور حالات کے بہاو میں بہنے کے بجائے محاذ پر ڈٹے ہوئے لڑ رہے ہیں۔ یہ نوجوان اب کسی کو بھی معاف نہیں کرینگے کہ وہ افغانستان کے حالات کو جواز و بہانہ بنا کر بزدلی کا شکار ہوکر دشمن کے سامنے سر جھکا دیں۔

ایک طرف نوجوانوں کی شعور کی سطح دوسری طرف اس بیس سالہ جنگ میں پورے بلوچستان میں کوئی ایک گھر نہیں جو متاثر نہ ہو، یہ قربانیاں، یہ غم، یہ پریشان خاندان کسی کو بھی معاف نہیں کرینگے۔

گوکہ مشکلات و تکالیف پہلے بھی تھے، آج زیادہ ہونگے، مگر جو جنگ ہے وہ جاری تھا اور جاری رہیگا۔ فقط مخلص جہدکاروں سے یہی امید و توقع ہے کہ وہ اس نازک حالت میں دن رات محنت کرکے قربانی دیکر اپنی قوم کو دنیا کو یہ عملا باور کرائیں گے کہ خطے کی حالات کی تبدیلی سے بھی یہ جنگ نہیں رکے گی بلکہ شدت اختیار کرے گی۔ اگر قوم کو یہ باور ہوا پھر ہمیشہ پوری قوم جنگ کے ساتھ ہوگی، انھیں امید ہوگی کہ اب یہ جنگ کسی صورت نہیں رکے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں