بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں نیشنل پارٹی کی جانب سے بی ایل ایف اور بلوچ قومی رہنماؤں کے خلاف زبان درازی سے ان کی اصلیت ظاہر ہوگئی ہے۔ اس بارے میں بی ایل ایف کی جانب سے ایک تفصیلی بیان نے ان کے تمام جھوٹے دلائل کو غلط ثابت کرکے انہیں لاجواب کیا تو کل ان کے ترجمان نے ضلع کیچ کے علاقے خیرآباد میں ہونے والی واقعہ کو حواس باختگی میں قاتلانہ حملہ قرار دیکر میڈیا میں ایک دفعہ پھر پاکستانی فوج کی زبان بول کر اُن کی بلوچ کش پالیسیوں میں ہمنوا ہونے کا خود ایک اور ثبوت دے دیا۔ حالانکہ سرمچاروں نے انہیں گرفتار اور پوچھ گچھ کی مگر عوامی ضمانت پر رہا کر دیا۔ یہ ہماری انصاف کا ثبوت اور اعلی معیار ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ نیشنل پارٹی کے اس طرح کی موقف و بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کی بلوچ نسل کشی میں اسی طرح ساتھ دیتا رہے گا۔ اس طرح عالمی قوانین ہمیں بھی اجازت دیتے ہیں کہ نسل کشی میں ملوث اور آزادی کی جنگ میں قابض کے شراکت دار افراد کو سزا دی جائے۔ ایسی عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ہماری ذمہ داری اور بلوچ قوم کی خوشحالی ہے۔ ان خونخوار درندوں سے چھٹکارا وقت کی عین ضرورت ہے جو مخبرو غداروں کی موت پر آنسو بہاتے ہیں اور معصوم بلوچ ماں، بہن، چھوٹے بچوں اور طلبا سمیت تمام بلوچوں کی شہادت یا اغوا پر شادیانے مناتے ہیں۔ اکیسویں صدی اورسٹیلائیٹ و سوشل میڈیا کے دور میں پل پل کی خبر حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ایسے میں ان کی سیاہ کرتوتوں؛ بلوچوں کے قتل عام میں فوج کے ہمراہ ہ، نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے جرائم وغیرہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ یہ آج کی بات نہیں بلکہ مشرف دور میں بھی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو بلوچ نسل کشی میں معاونت پر خصوصی مراعات دی گئیں۔ خود مشرف نے ضلع آواران کی ناظم خیرجان کو اپنا چھوٹا بھائی قرار دیا، اور نواب اکبر خان بگٹی قتل میں ملوث گورنر اویس غنی، نیشنل پارٹی کی حمایت و تعریف قصیدے پڑھتے رہتے تھے۔ غرض ان سترہ سالوں کی تاریخ میں کوئی بھی صفحہ پلٹیں تو نیشنل پارٹی فوج کے ساتھ بیٹھا بلوچ نسل کشی میں ہاتھ بٹھاتا دکھائی دے گا۔ مگر ہماری صبر و تحمل کو کمزوری سمجھ کر یہ تمام حدوں کو پار کر گئے۔اب ان کی اصلاح اور راہ راست پر واپسی ناممکن ہے۔