سانحہ ہوشاپ پر عالمی اداروں کی خاموشی ان کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔ بی ایس او آزاد

206

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں ہوشاپ میں ہونے والے اندوہناک واقعے اور لاشوں سمیت ایک ہفتے سے جاری دھرنے کے باوجود عالمی اداروں کی مکمل خاموشی پر نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر عالمی اداروں کی خاموشی ایک طرف ان کے وجود پر سوالات جنم دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب ان کی خاموشی ریاستی جبر و ستم کو ایندھن مہیا کر رہی ہے اور ریاستی ادارے آئے روز ظلم و بربریت کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی جبری قبضے کے ساتھ ہی ریاست نے اپنی استبدادی اور قبضہ گیر پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ قومی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ ریاست کی جانب سے جہاں سیاست سمیت تمام قسم کے سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی اور متحرک کارکنان کو جبری طور لاپتہ کر کے مسخ شدہ لاش پھینک دی گئیں وہیں عام آبادیوں اور نہتے عوام کو بھی گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے بربریت کی داستانیں قائم کی گئیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ہفتے ریاستی فورسز کی جانب سے اپنے روایتی طرز عمل کو اپناتے ہوئے ہوشاپ میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی جبکہ عام آبادی پر مارٹر گولے فائر کیے گئے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے مارٹر گولوں کی زد میں آ کر ایک ہی خاندان کے دوبچے شہید ہوئے جبکہ ایک بچہ شدید زخمی حالت میں ہے۔ ریاستی فورسز جہاں اپنی جنگی جرائم کو چھپانے کےلیے پوری مشینری کو بروئے کار لاتا ہے وہیں متاثرہ خاندانوں کو خاموش کرانے کےلیے خوف اور لالچ سمیت مختلف حربوں کو آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں کو آزماتے ہوئے سانحہ ھوشاپ کے لواحقین کی آواز کو بھی سرکار اور سرکاری حواریوں نے دبانے کی کوشش کی جس کے خلاف سانحہ ھوشاپ کے لواحقین نے مزاحمت کا راہ اپناتے ہوئے کوئٹہ کی جانب مارچ کیا اور تاحال کوئٹہ میں لاشوں سمیت دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی بربریت کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلااور انوکھا واقعہ نہیں ہے جبکہ بلوچستان میں اس طرح کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جہاں ریاستی فورسز نے نہتے عوام کو نشانہ بنایا ہے۔ ریاستی فورسز کی جانب سے گزشتہ سال ایک طالبعلم حیات بلوچ کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، ریاستی جتھے کی جانب سے ایک گھر کی چادر و چار دیواری کی پامالی کی گئی اور ملک ناز کو شہید کیا گیا جبکہ چند عرصہ قبل کیچ ہی کے علاقے آبسر میں بلوچ خاتون تاج بی بی کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔

اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کو معمول بننا اور آئے روز عام عوام کو بے دردی سے قتل کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ایسے واقعات محض واقعے ہی نہیں بلکہ بلوچ نسل کشی کا ہی تسلسل ہے۔ سانحہ ھوشاپ کے لواحقین پاکستانی جنگی جرائم کے خلاف گزشتہ ہفتے سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں جبکہ عالمی ادارے اس حوالے سے مکمل خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے بلوچستان میں ریاستی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف پاکستان کو قانوں کے کٹہرے میں لائے اور بلوچستان میں جاری جنگی جرائم کے خلاف جواب طلبی کرے۔