سریاب میرا گھر ہے ۔ دیدگ بلوچ

338

سریاب میرا گھر ہے

تحریر:دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پروفیسر محمد اشرف بلوچ ضلع پنجگور کے رہائشی تھے۔ انکی پیدائش پنجگور میں ہوئی۔ انہوں نے اپنا بنیادی تعلیم پنجگور کے گورنمنٹ ھائی سکول گرمگان میں حاصل کی۔ میڑک پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کیلئے شال چلے گئے وہاں انھوں نے گورنمٹ ڈگری کالج سریاب روڈ میں ایف۔اے کی ڈگری حاصل کی اور یہیں سے انھوں بلوچ قومی ادارہ و طلباءَ تنظیم بی ایس او میں شمولیت کی۔ بی ایس او نے قومی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک حقیقی وطن دوست اور انسان بھی بنایا، جسکا ثبوت انہوں نے زندگی کے آخری دم تک جدوجہد کی صورت میں دی۔

ایف۔اے کی تعلیم کے بعد انکے مالی حالت کمزور ھونے کی وجہ سے دوسال تک پرائیویٹ ملازمت کرتے رہے۔اس دوسال کے دورانیہ میں وہ روزگار کے ساتھ ساتھ مختلف کتب کا بھی مطالعہ کرتے رہے اور ساتھ بی۔اے کے امتحان کی تیاری بھی کی۔ بی اے پرائیویٹ کرنے کے بعد انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ مطالعہ پاکستان میں داخلہ لیا ۔ ماسڑ کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے مرضی و منشاءَ کے مطابق استاد کا پیشہ اختیار کیا۔ اور 1999ءَ میں p.c.s کا امتحان پاس کرکے وہ مطالعہ پاکستان کے لیچکرار کے عہدے پر فائز ھوئے اور انھوں گورنمنٹ کالج پنجگور سے اپنے سروس کا آغاز کیا۔

تعلیم کے شعبے میں ایک فرض شناس کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1999ءَ سے لیکر 2013 تک وہ پنجگور کالج میں رہے اور جولائی 2013ءَ میں انکا ٹرانسفر گورنمنٹ کالج عطاشاد تربت میں ھوا ۔ کچھ عرصہ کے بعد انکا تبادلہ گورنمٹ کالج ھوشاب میں ھوا چھ (6) ماہ تک وہ ھوشاب کالج میں پرنسیپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ 2014 کے آخر میں انکا تبادلہ گورنمٹ پوسٹ گریجیوئٹ کالج سریاب کوئٹہ میں ھوا۔اسی کالج میں وہ وائس پرنسیپل کے عہدے پر فائز رہے۔ لیکن وائس پرنسیپل ھونے کے ناطے وہ ہمشہ اپنا کلاس لیتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں کلاس نہ لوں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ میں کالج گیا ھوں۔ جس دن انکا اپنا کلاس نہ ھوتا تو پورے کالج کا دورہ کرتے جس کلاس کو بھی خالی دیکھتے اس میں جاکے طلباءَ کو لیچکر دیتے۔ اور طلباءَ سے سوال کرتے ان سے مختلف موضوع پہ بحث کرتے اور ھر سوال جواب اس اندازے میں ادا کرتے کہ وہ سننے والا پھر کبھی اسکو بھول نہ سکتے۔

وہ ایک عظیم استاد ھونے کے ساتھ ایک درد رکھنے والے انسان تھے انکے دل میں وقت اپنے قوم کے لوگوں کیلئے خاص کر طلباءَ کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔ جو  شخص بھی ان سے ملتا اسکو یقین نہیں آتا کہ وہ اجنبی ہیں وہ ایسا محسوس کرتا جیسا انکا صدیوں پرانا رشتہ چلا آرہا ھے۔ وہ ایک حقیقی انسان دوست اور قوم دوست انسان تھے وہ اپنے فرض سے اس قدر مخلص تھا کہ وہ اپنے ذات تک ہی کو بھول چکا تھا وہ اس قدر اپنے فرائض میں تنہا مگن ھو گئے کہ اپنی صحت تک کا خیال رکھنا چھوڑ دیا ۔ انھوں نے لالچ کو اپنے سے اتنا دور رکھا کہ وہ آخری روز تک اپنے تنخواہ کا حساب نہیں جانتے تھے۔ وہ اپنا اے ٹی ایم کاررڈ اپنے بیٹے کے حوالے کر چکے تھے اور جب انکو پیسوں کی ضرورت ھوتی وہ اپنے بچے سے پیسہ مانگتے ۔لیکن وہ اس قدر قوم دوستی میں مگن ھوگئے کہ کسی بھی طالبعلم کو دیکھتے گھنٹوں تک کھڑے ھو کے اس کے ساتھ گفتگو کرتے لیکن تھکنے کا نام نہیں لیتے ۔

انھوں نے اپنے قومی، سماجی اور انسان دوستی کے فرائض کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جدوجہد کیا۔ کالج میں ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ انھوں ہاسٹل کی ذمہ داری کو اپنا قومی فرض سمجھ کر اپنے ذمہ لے لیا۔ کئی لوگوں کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ ھاسٹل کی ذمہ داری کو قبول کیے رہے ۔انھوں نے ھاسٹل کے غریب طلباءَ سے دوستی اس قدر بڑھایا کہ ھاسٹل میں قیام پزیر طلباءَ اپنے والدین سے زیادہ اشرف صاحب سے اپنے مسائل بیان کرتے۔انھوں نے ان دور دراز علاقوں سے آئے ھوئے طلباءَ کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبت دیا ۔ وہ رات دیر تک ھاسٹل کے لائبریری میں بیٹھ کر اسٹوڈنس کو سائنس فلسفہ اور دیگر علوم کا درس دیتے رہے وہ رات اتنے دیر تک ھاسٹل لائبریری میں طلباءَ کے بیٹھتے کہ انکے گھر والوں نے کئی دن انھیں فون کر کے پوچھا کہ آپ آرہے ھو یا پھر ھم لوگ سوجائیں؟ وہ مسکرا کے جواب دیتے اور کہتے یہ بھی میرے بچے ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ انکا حق ھے ۔

وہ ایک مخلص اور محبت کے اعلیٰ درجہ پر فائز انسان تھے۔ انھوں نے ھاسٹل میں طلباءَ کیلئے ایک الگ کلاس کا بندوبست کیا ۔ جہاں طلباءَ نے باقاعدہ ایک کلاس کا آغاز کیا جس میں وہ ایک دوسرے کو انگلش بلوچی براہوی اور دیگر علوم پہ درس دیتے ہیں۔ انھوں نے 2014  سے لیکر 2019 تک گورنمٹ کالج سریاب میں فرض انجام دیا ۔ اسی دوران انہوں دنیا کے سب بڑے انگلش ناول Roots کا بلوچی میں ترجمہ کیا وہ بلوچی ادب میں بے حد قابل تھے۔ روٹس ناول جو 800 صفحات پہ مشتمل ھے اپنے مادری زبان میں ترجمہ کرکے تاریخ میں اپنے قوم دوستی اور زبان دوستی کا ثبوت تاریخ میں رقم کر گئے ۔

2014 سے 2019 تک وہ اسی کالج میں رہے 2019  کے december کو انھوں نے اپنا تبادلہ واپس گورنمنٹ ڈگری کالج پنجگور میں کیا۔ وہ 2019 december سے لیکر اگست 2021 تک پنجگور کالج میں رہے ۔ لیکن سریاب کی محبت نے انھیں واپس اپنے طرف کھینچا اور وہ اگست 2021 کو واپس سریاب کالج میں آئے ۔ یہاں ان کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی آخر گار 22 ستمبر 2021 کو پروفیسر محمد اشرف بلوچ جسمانی طور ہر ھم سے ہمشہ کیلئے جدا ھوگئے۔ لیکن انکا سوچ انکا نظریہ اور فکر ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

پروفیسر محمد اشرف بلوچ سریاب سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ وہ سریاب کو جنت سے تشبیہہ دیتے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کہتی ہے اک جنت ھے میں کہتا ھوں سریاب میرا جنت ھے۔

انھوں نے سریاب سے اپنے محبت کا ثبوت لوڑکاریز جیسے پسماندہ علاقے میں لائبریری کا افتتاح کر کے ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا۔ وہ ھر طرح سے سریاب کو حوشحال دیکھنا چاہتے تھے وہ سریاب کے نوجوانوں کو دنیا کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز ھونے کا خواب ہمیشہ سے اپنے سینے میں لیے ھوئے تھے ۔ وہ سریاب کیلئے بے حد درد رکھتے تھے۔اور شاید اسی درد نے انکا جان بھی لے لیا۔

وہ اس قدر فرض شناس انسان تھے کہ آخری روز بھی اپنے صحت کی پرواہ کیے بغیر سریاب چلے آئے تھے اپنی کلاس لینے۔ وہ آج بھی اضافی کلاس لے چکے تھے۔ وہ آج بھی طلباءَ سے بول رہے تھے کہ اٹھو دنیا کا مقابلہ کرو دنیا سائنس کی طرف جارہی ھے۔اور تم ابھی تک خواب خرگوش میں سوئے ھو۔ اٹھو اپنے حقوق کیلئے آواز ٹھاؤ۔

پروفیسر محمد اشرف بلوچ  ایک حقیقی غم خوار تھا سریاب کا غم خوار تھا۔ انکے دل میں پنجگور مکران سے لیکر ڈیرہ غازی کوہ سلیمان تک کے ہر بلوچ طالبعلم کیلئے درد تھا۔ وہ ہر وقت سریاب کے نوجوانوں کا غم کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں حیران ھوں  لوگ بلوچستان کے چپے چپے سے آکے سریاب کالج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔لیکن پتہ نہیں یہ سریاب والے کیوں نہیں پڑھتے ۔

اس دفعہ جب پنچگور سے واپس سریاب کالج میں اپنا تبادلہ کروایا تو میں نے پوچھا واجہ آپ کیوں واپس سریاب آگئے وہاں تو آپکا علاقہ تھا گھر والے تھے ۔تو جواب میں مسکراتے ھوئے مجھ سے کہتے ہیں یقین کرو سریاب کی محبت نے وہاں مجھے ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔

اسکی مہرو محبت نے مجھے مجبور کیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب اپنے سروس کے جتنے بھی سال ہیں سریاب ہی میں گزارنے ہیں۔۔۔ وہ سریاب کا حقیقی عاشق اب جسمانی طور پر ھم میں نہیں رہا۔لیکن اسکی سوچ اور فکر ہر صبح و شام اسی سریاب میں ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔وہ بلوچ طلباءَ کا وارث کا چلا گیا وہ ہر طالبعلم کا روحانی پاپ چلا گیا۔ شال میں باہر سے آنے والے طالبعلموں کا ایک سہارا تھا۔ وہ ادارے میں طلباءَ کے ساتھ ھونے والے ہر ناانصافی کیلئے لڑتا تھا۔۔ اشرف صاحب شال میں ہمارے غریب بلوچوں کیلئے ایک سہارا تھا۔۔ وہ غم خوار چلا گیا۔

وہ بہت کچھ کر چکا تھا اس نے ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔  اس نے اپنا فرض پورا کیا وہ اپنے حصے کا کام کر کے چلا گیا ۔اسکی سب بڑی دلیل یہ کہ وہ آج بھی کالج میں ڈیوٹی پر تھا وہ آج بھی درس دینے آیا تھا ۔وہ آج بھی سریاب کو مکمل دیکھ چکا تھا۔ آج بھی آخری دم تک سریاب کا درد اسکے دل میں دورہ کررہا تھا۔ اور اسی درد نے اسکی جان  لےلی وہ آج بھی بلوچ طالبعلموں کو شعور دے رہا تھا۔ وہ آج بھی اس سوئے ھوئے قوم کو جگا رہا تھا۔ وہ آج بھی یہی صدا لگا رہا کہ میرے سریاب کے نوجوان میرے محبوب سریاب کے نوجوان جاگ، جاگ کہ تجھے دنیا کا مقابلہ کرنا ھے ۔ اٹھ میرے کل کا نوجوان قلم اور کتاب کے ذریعے دنیا کو فتح کرکے اپنا حق حاصل کرکے سریاب کیلئے کچھ کرنا ہے۔ میرے محبوب کی حفاظت کر۔میرے محبوب  سریاب کے چہرے کو مزید مت روندنے دے ۔قلم اور کتاب سے اپنا دوستی بنا۔

اور وہ اُس دن کتنے خوش تھے جب سریاب کے علاقے لوڑکاریز میں لائبریری کا افتتاح کر چکے تھے۔ اور کہہ رہےتھے اب سریاب بدلے گا۔ اب میرے محبوب میں بسنے والے ہر نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم ھوگا لیکن یہ موت برحق ھے آخر سب کو آنی ھے۔ لیکن اشرف صاحب کی کمی شاہد اب کبھی پورا نہیں ھو سکے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں