بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے 11 اکتوبر کو جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے نوجوان نوید بلوچ کی بحفاظت بازیابی کے لیے لواحقین کی جانب سے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
نوید بلوچ کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا – سوشل میڈیا میں ایک وائرل ہونے والے وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سی ڈی ٹی اہلکار خواتین اور بچوں کے سامنے انہیں لے جارہے ہیں –
مظاہرین نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں، بلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے درج تھے –
احتجاج میں لاپتہ افراد کی لواحقین طلباء و سیاسی تنظیموں سمیت مختلف مکاتب فکر اور خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی-
اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے نوید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ریاست خطرناک حد تک بلوچستان میں نوجوانوں کو پابند سلاسل کررہا ہے –
مقررین نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب مذید تیزی کے ساتھ سی ٹی ڈی کے ذریعے لوگوں کو لاپتہ اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں شہید کیے جاتے ہیں –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں –
اس موقع پر لاپتہ نوید بلوچ کی بہن انسا بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی کو بحفاظت بازیاب کیا جائے –
انکا کہنا تھا کہ پہلے میں اپنے بھائی عامر کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج تھی اور پریس کلبوں کے سامنے آتی تھی انکی بازیابی کے بعد اب میری دوسری بھائی کو لاپتہ کیا ہے –
انسا بلوچ نے کہا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے –
انہوں نے کہا کہ یہ ریاست ہمیں ایسے ازیت ناک زندگیوں سے گزار رہی ہے کہ جو تکلیف دہ ہے-
انہوں نے بھائی نوید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا –
نوید بلوچ جامع بلوچستان میں کامرس ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم ہے، جنہیں 11 اکتوبر کو ان کے رہائش گاہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے نوید بلوچ کا بھائی عامر بلوچ کو 2016 میں بلوچستان کے ضلع خاران سے لاپتہ کیا گیا تھا ،دو سالوں کی طویل گمشدگی کے بعد 2019 کو وہ بازیاب ہوئے تھے –