بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی کے زیر اہتمام برلن میں ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔

154

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بی این ایم جرمنی زون کی جانب سے ہفتے کے روز دارالحکومت برلن میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار سیاسی کارکنوں کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف برلن گیٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے مظاہرین نے بلوچستان میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے عالمی برادری سے بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی۔ مظاہرے کے دوران جرمن اور انگلش زبان میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا، جس میں جعلی مقابلے میں مارے جانے والے سیاسی کارکنوں کی تفصیلات اور دیگر مظالم سے آگاہی دی گئی۔

اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ، جنرل سیکریٹری اصغر علی اور بی آر پی جرمنی کے ممبر فواز بلوچ اور مقامی سوشل ایکٹوسٹ نے خطاب کیا۔ مقررین نے ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، جبری گمشدگیوں کے بعد جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو شہید کرنے کے اس نئے سلسلے کو انسانی المیہ قرار دیا۔

بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے کہا کہ سالوں سے پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں سیاسی کارکنوں کی جعلی مقابلوں میں قتل بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے۔ اگر انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچستان میں اس طرح کے مظالم پر خاموش رہے تو بلوچستان میں یہ انسانی المیہ مزید گھمبیر سکتا ہے۔

بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر علی بلوچ نے پروگرام میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو مہینوں میں پاکستان کی پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے 28 بلوچ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارا ہے، جو کئی سالوں سے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار بنے ہوئے تھے۔

اصغر بلوچ نے کہا کہ پچھلے دو دہائیوں میں پاکستانی قابص فوج نے بلوچستان پر بے شمار مظالم ڈھائے ہیں جو لوگوں کی جبری گمشدکی سے لیکر اُن کو زندان میں بند کر کے انسانی سوز سزا ہئں دینا، اور بعد میں انکی مسخ شدہ لاشوں کو سٹرک کنارے اور ویران علاقے میں پھینکنا شامل ہے۔ مگر قابض ریاست کی ظلم اور جبر تھم جانے کا نام نہیں لے رہے ہیں؛ بلکہ ریاستی جبر میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اصغر بلوچ نے مزید کہا کہ پچھلے دو دہائیوں میں ریاستِ پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ایکٹوسٹس کو جبری طور پر گمشدہ کی ہے۔ وہ کسی کوئی جرم کئے بغیر پاکستانی عقوبت خانوں میں رکھے گئے ہیں۔ اب پاکستان بلوچ مسنگ پرسنز کی تحریک کو ناکام بنانے کےلیے، بلوچ مسنگ پرسنز کو قتل کر کے جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اسکی مثال بلوچ نيشنل مومنٹ کے ممبرز صدام اور عبدل بلوچ ہیں جنہیں پاکستانی فورسز نے اپریل 2018 میں ملیر کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا اور اب انہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا۔

بی آر پی کے ممبر فوز بلوچ نے سی ٹی ڈی کی جانب سے لاپتہ افراد کی جعلی مقابلے میں مارنے کی واقعات کا شدید الفاط میں مذمت کی اور کہا کہ یہ ہماری قومی ذمّہ داری بنتی ہے کہ ہم بلوچستان میں ہر ہونے والی جبر کا نوٹس لیں اور دنیا کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی تو پاکستان بلوچ قومی تحریک کو دبانے کیلئے کسی بھی طرح کی ظلم و جبر ڈھانے میں کوئی دریغ نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج یہاں مہذب دنیا کے سامنے بلوچستان میں پاکستانی مظالم آشکار کررہے ہیں۔