زیادتیوں کے شکار بلوچ طالب علم ۔اسرار بلوچ

342

زیادتیوں کے شکار بلوچ طالب علم

تحریر:اسرار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان ہمیشہ سے ریاستی جبر ، ظلم اور نا انصافیوں کا شکار رہا ہے، چاہے یہ زیادتیاں صوبائی خودمختاری کے حوالے سے ہوں، تعلیم، صحت و ترقی کیلئے سالانہ بجٹ کے شکل میں ہو، یا شہید حیات بلوچ، ملک ناز و تاج بی بی سمیت دیگر معصوموں کی قتل کی شکل میں ہو مگر بلوچستان کے باسیوں نے ہمیشہ ان کے خلاف مزاحمت کی اور ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی، مگر حالیہ دنوں میں پی ایم سی کے احتجاج میں ہانی بلوچ کی رحلت کے بعد اٹھنے والے آواز اور مزاحمت کو روکنے کیلئے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

اس معاملے کے بعد بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں جیسے کہ ہانی بلوچ کی قتل کے محرکات کیوں چھپائے جارہے ہیں اور کس بنیاد پر جام کمال ظریف ٹولے کے بیان کو بطور ثبوت پیش کررہا ہے؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی پردہ پوشی کے لئے جام کمال اور ظریف ٹولہ ایک پیج پر ہیں اور ایک ہی موقف رکھتے ہیں؟ قوم اور طلباء کے نفرت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس ریاستی قتل کو طبی موت قرار دی جارہی ہے۔

گر ہانی طبی موت کی شکار ہوئی ہے پھر بھی یہ قتل ہے اور اس کو میں قتل اس لئے سمجھتا ہوں کہ ریاست نے طلباء و طالبات کے لئے حالات اس طرح بنائے ہوئے ہیں کہ وہ ہر قدم پر جبر کا شکار ہیں، یونیورسٹی ہراسمنٹ کیس ہو، بی ایم سی میں رونما ہونے والے واقعات ہوں، سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کے مسائل ہوں یا پھر حالیہ واقعات ہوں یا پھر پاکستان میڈیکل کونسل کی جانب سے انٹری ٹیسٹ میں بے ضابطگیاں ہوں ہر طرف سے طلباء نشانے پر ہیں۔ ان کو جان بوجھ کر تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کی جارہی ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں حالات کو پراگندگی کی طرف لیجایا جارہا ہے۔

ایک طرف طلباء کی بنیادی تعلیمی حقوق غضب کئے جارہے ہیں ان کا استحصال کیا جارہا ہے، جب وہ اپنے جائز حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں انہیں ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کیجاتی ہے۔ اور اس آواز کو دبانے کیلئے ایک ٹولے کو ایکٹو کیا جاتا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے میں طلباء و طالبات دو بار ریاستی سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان کے روایات کو پامال کرکے طالبات کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور درجنوں طلباء کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کیا گیا اور ہانی اس جدجہد کا حصہ تھی اور اس جدوجہد کے دوران وہ علیل ہوئی اور شہادت پائی۔

اب اگر وہ پولیس تشدد کا نشانہ نہیں بنی ہے، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس قتل کا ذمہ دار ریاست ہے کیونکہ ریاست کی جبری پالیسیوں نے ہانی کو اس حد تک مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے صحت و علاج معالجہ کے بجائے اپنی تعلیمی حقوق کے لئے بیماری کی حالت میں بھی سراپا احتجاج تھی۔ اب ریاست اور ریاست کے لے پالک جتنی بھی صفائیاں پیش کریں وہ اس ریاستی قتل کو جتنا دبانے اور طبی موت قرار دینے کی کوشش کریں لیکن باشعور سیاسی کارکن اس موت کو ریاستی قتل سمجھتے ہیں۔

ظریف ٹولہ ہمیشہ ریاستی ایجنڈے کو لے کر بلوچ طلباء سیاست کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ایک مرتبہ پھر ریاست کو ظریف ٹولے کی آڑ میں کہور خان جیسی سازشی اور تقسیم، توڑ پھوڑ کے داعی ہاتھ میں آئے ہیں، جو ہر موقع پر تقسیمی فارمولے پر عمل پیرا ہوکر طلباء کو آپس میں الجھاتے ہیں۔ اب ہانی کے مقدس خون نے ان بہروپیوں کے چہروں سے نقاب اتارے ہیں اور یہ ریاستی لے پالک و کاسہ لیس اور نام نہاد سرخے بے نقاب ہوچکے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں