کتاب: تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں
مصنف:ارشد محمود | تبصرہ: عرفان نواز
دی بلوچستان پوسٹ
ارشد محمود نے اپنی یہ کتاب اس ملک میں بسنے والے اُن نوجوانوں کے نام لکھی ہے جن کے پاس آج کے اکیسویں صدی کے دور میں بھی کتابیں اور اسٹیشنری کے سامان لینے کے لئے پیسے نہیں ہیں اور وہ آج تعلیم جیسے عظیم نعمت سے محروم ہیں ۔ ارشد محمود نے اس کتاب میں اس ملک کی تعلیمی نظام اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام میں دور رس موازنہ کیا اور انھوں نے بہت سے تعلیمی مفکرین کی سفارشات اور تنقیدی جائزوں کو بھی پیش کیا ہے جنہیں ہم روز مرہ اپنے طرز عمل کے مطابق کرتے چلے آرہے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف کے مطابق اردو میں سائنسی اور تجرباتی اسلوب پراس طرح کی بہت کم کتابیں لکھی گئی اور شائع ہوئی ہیں ۔اس کتاب کاہر پیراگراف آپ کو سوچنے اور سوال اٹھانے پر پابند کر دیتی ہے ۔اوریہاں یہ بات بھی عیاں ہے کہ ان کی یہ کتاب ظلمت پسندی کے خلاف ایک جہاد ہے۔
دانشوری میں لبرل اور سیکولر سوچ کا ارتقاء لازمی ہے مگر ہمارے ہاں سچ بولنا قابل تعزیر ہے اور کوئی شخص سچ بولنے کی سکت رکھتاہی نہیں ہے۔ لیکن ان کی گئی تحریریں اس ملک کی تعلیمی نظام کے متعلق سچ پر مبنی ہے اور ایسی تحریریں معاشرے کے لئے تلخ ہیں۔
ارشد محمود پاکستان کی تعلیمی نظام کے بارے میں لکھتا ہے کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور وہ ناخواندہ ملکوں کی لسٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سرفہرست ہوتے جا رہے ہیں۔(ڈان اخبار کے مطابق حالیہ تحقیق میں پاکستان خواندگی کی شرح 120ملکوں میں سے 113واں نمبر پر پہنچ چکی ہے اور پاکستانی خوش ہیں کہ ملک میں تعلیمی نظام کرتی آ رہی ہے۔)جس کی سبب نوجوانوں کو اپنی یونیورسٹیز، لائیبریوں ،لیبارٹیریوں اور دوسرے تحقیقاتی اداروں سمیت سکولوں اور کالجوں میں اتنی دلچسپی نہیں جو ہمارے قوم کو ایٹمی قوت بننے پر فخر ہے۔ اور ایٹمی طاقت کو بچانے کے لئے دن رات سڑکوں پر ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہروں میں بھیٹے ہوئے ہیں۔اسطرح کی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئی ہیں جس میں ہمارے ہاں خواندگی شرح زیادہ ہو اور ہم جدید تعلیم کی افادیت سے فائدے اٹھائیں۔
ارشد محمود اس معاشرے کے ماضی کو یاد دلاتے ہیں جس میں وہ اس تعلیمی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس طرح ہم ماضی میں تھے ہمارے پاس سہولیات کا فقدان تھا لیکن آج کے اس جدید دور میں بھی ہم وہی طریقہ کار دہرا رہے ہیں ہمیں تھوڈا ماڈرن بن کے رہنا ہےاور ہم اس سے ناکام ہوگئے ہیں۔
وہ انگریز کے دورِ حکومت اور تعلیم نظام پر لکھتے ہیں کہ کوئی بھی قوم اپنے آپ کو خدا کی خصوصی اور پیاری قوم کا دعویٰ کیوں نہ کریں لیکن تاریخ اور فطرت کے قوانین سے نہیں بچ سکتی۔ اس زمانے میں انگریز علم کو طاقت کا سب سے بڑا زریعہ سمجھا جانے لگا۔ مادی دولت جن کے پاس ہے جس کے پاس فطرت اور کائنات کی زیادہ علم ہوگی اور مادی علم کو حاصل کرنے کا طریقہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے ہندوؤں اور بالخصوص مسلمانوں میں رسمی منظم نظام تعلیم کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
1898 کو جب لارڈ کرزن کو ہندوستان کے وائسرائے بنا کر بھیج دی گئی تو انہوں نے برصغیر کی تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے کا عزم کیاتھا ۔اس وقت ہندوستان میں سکولوں کی تعداد نہ ہونے کی برابر تھی اور ایک گرلز سکول تھی ۔ وائسرائے لارڈ کرزن یونیورسٹی کا چانسلر بھی تھا انہوں نے ایک تعلیمی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے برصغیر کی تعلیمی مسائل پر ایک ایسی تقریر کی جو ہمارے آج کے حالات پر بھی صحیح دیکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا جب میں ہندوستانی طلباء و طالبات کو ایک نہ ختم ہونے والے امتحانات کے سلسلے میں دیکھتا ہوں جو ہر وقت زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارے قوم میں رٹے کی عادت کو پیدا کر کے لوگوں کی ذہانت کو عبور نہیں کرسکتے۔
دوسری جانب مصنف ارشد محمود سائنسی تجربات کے حوالے سے ہماری مسلم سوسائٹی کے نوجوانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے نوجوان کے سامنے سائنس کا مطلب سائنسدان بننا نہیں بلکہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہے ۔سائنسی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں مشینری مغربی ممالک سے خرید کر لینا پڑتاہے۔ہماری ان پڑھ مریض ہو یا تعلیم یافتہ ڈاکٹر دونوں ایک بات ہوتی ہے شفاء تو اللہ ہی کو دینا ہے بلکہ یہ علاج محض ایک کوشش ہے جسے ہم کرتے ہیں ۔
مصنف لکھتاہے کہ ہمارے مطالبات کو ماننے کے لئے مغرب توکیا یہ خداکے بس میں نہیں ہیں کہ اسکی طرف سے یہ واضح کردی گئی ہے جتنا محنت اور کوشش کرو گے اتنا پاؤگے خود نہیں بدلوگے تو کوئی بھی بدل نہیں سکتا۔
مصنف پاکستانی تعلیمی نظام کے حوالے میں لکھتا ہے کہ ہمارے نصاب میں دینیات اور مطالعہ پاکستان کے نصاب کو شامل کرکے ہمارے نوجوانوں کو مزید رٹے اور پرانے علم کی جانب راغب کی جارہی ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں پرائمری سے لیکر یونیورسٹی تک مطالعہ پاکستان اور دینیات کے ایک ہی تعلیم بار بار دہرایا جاتا ہے۔لیکن اب یہ جدید تعلیم کے تجربات اور لائبریریوں میں نوجوانون کو دور کیا جاتا رہا ہے ۔ ہماری نوجوانوں کو محض تعلیم امتحانات تک دی جارہی ہیں اور انہیں مزید علم تلاش کرنے کی پابندی عائد کردی گئی ہے ۔کیونکہ اس طریقے سے طلباء کو مزید سوالات ذہن میں نہ آئیں اور اُن میں موجود صلاحیت کو ختم کردی جائے۔ یہ طریقہ اس لئے اپنایا جارہا ہے کیونکہ ہماری اساتذہ کو اتنی تیاری ہی نہیں جتنی سٹوڈنٹس کی جانب سے سوالات آتے ہیں۔اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔
ہمارے مطالعہ پاکستان کی نصاب میں مسلمانوں کو اسطرح تعریف کیا گیا ہے کہ مسلمان بہت اچھے قوم ہیں اور وہ اچھے قوم ہی رہیں گی جتنی خرابیاں تھیں اور ہیں وہ تو ہندوؤں میں پائی جاتی ہیں اور ہماری ہر ناکامیوں کا ملبہ ہندوؤں پر ڈال دینے کی سبق دی جاتی ہے۔اور اسی طریقے سے ہماری مستقل کو سنواری جاتی ہے اور ہمیں تنقید اور ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم تو ازل سے پاک ہیں اور پاک ہی رہیں گے۔ تو کیا ہم انسان نہیں ہیں ہم سے غلطیاں سرزد نہیں ہوسکتی ۔لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ساری ناکامیاں اور غلطیاں ہم نے کی ہیں اور کر بھی رہے ہیں وہ تو ہمیں نظر نہیں آرہے ہیں۔
مصنف آگے کتاب میں مذہب اور سائنس کے حوالے سے لکھتاہے کہ مذہب اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں ہے اور ہر حربے استعمال کررہی ہے لیکن اس کے پاس کوئی reasoning نہیں ہے اور وہ reasoning دینے میں ناکام بھی ہوئی ہے۔ لیکن سائنس اپنی ہر ایک عمل کو reasoning کی بنیاد پر تجربات کرکے پیش کردیتی ہے۔تو اسی لئے سائنس اور مذہب کو ملانے سے دوستی نہیں بلکہ تصادم پیدا ہورہی ہے۔
مصنف کے بقول پاکستانی اس اقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک مذہب اور سائنس کو الگ الگ تصور نہیں کیا جاتا اور ان پر سوچ و بچار نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ بچوں کو نیکی پڑھاؤ لیکن بات واضح ہے کہ نیکی پڑھانے کی چیز نہیں ہےہی نہیں بلکہ کرنے کی چیز ہے۔کسی بھی معاشرے میں جتنی نیکی کیجاتی ہے اور اتنی ہی وہ موجود ہوتی ہے۔
آخر میں مصنف موجودہ تعلیم کے حوالے سے لکھتاہے کہ ہمارےہاں پڑھے لکھے جاہلوں کی بھرمار اس لیے زیادہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کے بجائے صرف کاغذ کی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہیں اور تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر میں جہالت ایک جیسا ہے۔
مصنف نے دوسری جانب بہت سے دانشوروں کی تعلیم پر کی گئی کاموں اور انکی قیمتی تجویزات اور سفارشات لے کر اس کتاب میں شامل کردی گئی ہیں جو کہ مسلمان ممالک اور خصوصاً پاکستان کی تعلیمی اداروں کی بلکل عکاسی کرتی آرہی ہے ۔اور میرابھی یہ خیال ہے ہم جتنی ترقی کرلیں لیکن ہمیں اور اُن لوگوں میں کوئی فرق نہیں جو تعلیمی اداروں کے باہر ہیں کیونکہ ہم اپنی ذہن کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتے اور اسے استعمال بھی نہیں کرتے جس طرح سے ماضی میں تھا ،آج بھی اسی طرح ہے اور کل بھی اسی طرح رہے گا۔
مصنف کتاب میں ایک مثال دیتا ہے کہ کسی باپ نے اپنی بچے کی فیس کو جمع کرنے کے لئے فزکس کے استاد کے پاس گئے اور اپنی بچے کی بارےمیں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔تو اس استاد نے کہا کہ آپ کا بچہ آج کل پڑھائی میں بلکل توجہ نہیں دی رہاہے ہوسکتا ہے کہ وہ اس اس سال فیل ہوجائے تو اُس باپ کی آنکھیں نم ہوگئیں کہ میں ابھی اپنے بچے کو کس طرح استاد کی باتیں بولوں۔ ویسے وہ بچہ کلاس میں سب سے زیادہ ذہین لڑکا تھا۔
استاد نے اسکی شکایت اس لئے کی کہ وہ بچہ فارغ وقت میں اپنی کورس کے لئے مختلف کتابوں سے مواد اکٹھا کرتے تھے اور وہ استاد سے اپنی علم کو زیادہ کرنے کے لئے سوالات اٹھاتے تھے لیکن وہ سوال استاد کو بُرے لگتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی استاد کی دی ہوئی لیکچر سے زیادہ یاد کی ہوئی ہے اور وہ استاد کی رٹے والی نظام پر عمل نہیں کرلیتا تو اس وجہ سے اُس استاد نے بچے کی شکایت باپ سے کی۔
پاکستان کی تعلیمی نظام ماضی سے لےکر آج تک وہی قدامت پسندی کے مطابق چل رہی ہے اور ہمارے وزیراعظم عمران خان کی تقریر جو میں نے پہلے بیان کی تھی ۔ اس تقریر میں کوئی شک نہیں کہ ہمارےہاں ابھی تک قدامت پسندی کو مزید فروغ دی جارہی ہے اور دی جائیگی کیونکہ ہم آج کے اس اکیسویں صدی کے جدید دور میں بھی تعلیمی نظام کے حوالے سے وسیع تحقیق کے لئے پابندیاں عائد کر رہےہیں جو ہم آج بھگت رہے ہیں اور ہماری مستقبل کی نسلیں بھی بھگتیں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں