منصور چُپ رہتا تو شاید بچ جاتا  – رژن بلوچ

428

منصور چُپ رہتا تو شاید بچ جاتا
تحریر:رژن بلوچ

پُر سکون زندگی کس کی خواہش نہیں ہوتی یا کون آرام دہ زیست سے منکر ہونا چاہتا ہے لیکن اس کراہ ارض میں پرمُسرت زندگیوں کو ٹھکرانے والے تاریخ کے اوراق میں روشن باب کی مانند ہوتے ہیں جو اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دیتے ہیں، وہ آئندہ نسلوں کی زندگیوں میں بہار لانا چاہتے ہیں اِسی لئے وہ اپنی زندگی تاریک راہوں میں گزار کر سحر کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ ویسی ہی ایک شعوری فیصلہ عزت بلوچ نے کی، بلوچ قومی شناخت کو گھیرے میں لیے نوآبادیاتی عزائم کو فکر و نظریے سے شکست دینے کیلئے عزت نے کم عمری میں ہی مشکل راہوں پہ چلنے کو ترجیح دی۔

عزت بلوچ نے اپنی آنکھیں مادر گلزمین کے خوبصورت بارگاہ مشکے میں کھولے۔ماضی و حال کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ نظریاتی درسگاہ بی ایس او کے جہد مسلسل کے بدولت بلوچ سماج میں نوجوان کم عمری ہی میں سیاسی حوالے سے باشعور ہو جاتے ہیں سنگت عزت بھی سیاسی داؤ پیچ بہت ہی کم عمری میں سمجھ گئے اور16 سال کی عمر میں باقاعدہ طلباء سیاست کا حصہ بنے لیڈرشپ خصوصیات نے عزت کو بی ایس او کے سینٹرل کمیٹی ، انفارمیشن سیکریٹری اور سیکرٹری جنرل چُنا۔

عزت بلوچ سماج کے اس نسل سے ہے جس نے پرتشدد ماحول میں آنکھیں کھولی،مادر نے جنگی لوریاں سنائی، آنکھوں دیکھا حال اغیار کے ظلم و ستم تھے۔ بلوچستان سے تعلق ہونے کے ناطے وہ جانتے تھے کہ یہاں اپنے قومی شناخت کے متعلق جستجو کرنا قریب موت کے مترادف ہے۔اس کے آنکھوں دیکھا حال عملی سیاست میں سرگرم نوجوانوں کو پاکستان موت کے گھاٹ اُتار رہا تھا یا پھر پابند سلاسل کیے جارہے تھے اِن تمام آگاہی کے باوجود کہ دن بہ دن راستے کٹھور ہوتے جائیں گے، عزت نے ایک قدم پیچھے نہ ہٹایا اور وقت کی سختیوں کے دو بہ دو ہو کر آگے چلتے رہے۔ عزت جہد مسلسل پر یقین رکھنے والا سیاسی کارکن ہے وہ بلوچ قومی سیاست میں اصلاحات کے شدید حامی ہے ،وہ بی ایس او کی جدوجہد کو ایک نئی سمت کی جانب لے جارہے تھے، عزت بھی اس امر سے متفق تھے کہ اگر بلوچ سیاست میں کوئی نکھار پیدا کرسکتا ہے تو وہ بی ایس او کا ہی نوجوان ہے۔شبِ گراں تب سروں پہ ٹوٹی جب15 نومبر کی رات اطلاع ملی کے عزت بلوچ کو تین عزیز دوست چراگ، نودان اور کمبر کے ہمراہ پاکستان کے فوج نے کتابیں پڑھنے اور لکھنے کے جرم میں گرفتار کرکے منظرعام سے غائب کردیئے۔

بی ایس او کی نظریاتی پختگی کا حاصل یہ ہے کہ فدا، حمید، کمبر چاکر، کامریڈ قیوم، شفی، رضاجہانگیرجیسے باصلاحیت رہنماء زندگی جیسے خوبصورت شئے کو قربان کرتے ہیں زاکر ، زاہد ، لکمیر ، عزت ، نودان، چراگ جیسے مظبوط حوصلے کے مالک فکری نوجوان پاکستان جیسے جنونی ریاست کے قید و بند میں بھی مظبوط چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ بی ایس او نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے میں ایک منظم نظریاتی ادارہ ہے ۔شائد قارئین کیلئے یہ بی ایس او سے میرے جذباتی وابستگی ہے لیکن میں انتائی نرم مزاجی میں دلیل کے ساتھ کہتی ہوں کہ بی ایس او اپنے قیام سے بلوچ سماج میں فرسودہ قبائلی نظام، مذہبی جنونیت، نسل ، رنگ اور علاقائی تعاصب کے خلاف باقاعدہ ڈٹ کے کھڑا ہے جبکہ بلوچ سماج میں تعلیمی ماحول کے فروغ اور کتاب کلچر اُجاگر کرنے کا کریڈٹ بھی بی ایس او کے کارکنان کے ہی سر ہے۔ بی ایس او کے مظبوط فکر کارکنان بحیثیت قوم بلوچوں کو منظم کرنے اور بلوچ سماج سے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کیلئے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر جدوجہدمیں پیش پیش ہیں اور اس جدوجہد کے پاداش میں بی ایس او کے سینکڑوں کارکنان آج یا تو پاکستانی عقوبت خانوں میں ازیتیں جھیل رہے ہیں یا پاکستان کے مارواور پھینکوپالیسی کے نظر ہوچکے ہیں۔

پاکستان نے اپنے پر تشدد پالیسیوں کا دائرہ حدود وسیع کردیا ہے اور اس کے جنونی پالیسیوں کا خاص نشانہ بلوچ معاشرے کے کریم ہے۔ لیکن تاریخ کے تلخ تجربات سے نابلد پاکستان اس امر سے واقف نہیں کہ یہ جدوجہد بلوچوں کا شعوری فیصلہ ہے اس جدوجہد کا دارومدار افراد سے نہیں نظریے سے ہے، یہ نظریہ مزید عزت، لکمیر، نودان اورچراگ پیدا کر کے زیادہ پختہ شکل اختیار کرے گا اور تب تک جہد کرتا رہے گا جب تک نوآبادیاتی نظام کے وجود کو بلوچ سماج سے مکمل طور نیست و نابود نہ کردیں۔