چیرمین ماؤزے تنگ – تاریخ کا درخشان ستارہ ۔سلطان فرید بلوچ

498

چیرمین ماؤزے تنگ – تاریخ کا درخشان ستارہ

تحریر : سلطان فرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ لوگ اپنے کئے ہوئے جہدوجہد سے تاریخ کورنگ دیتےہیں_کٹھن راستوں کو پار کرکے اپنے آنے والے نسل کے خوبصورت مستقبل کیلئے وہ اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہیں_ ان ہی جہد کار اور انقلابی کامریڈوں میں سے ایک ماؤزے تنگ تھا۔ ماؤزے تنگ دنیا کے سب سے کثیر آبادی ملک چین کے انقلاب کے بانی اور اکیسویں صدی کے بااثر ترین سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھا۔

چیرمین ماؤ 26 دسمبر 1893 کو چین کے صوبے ہونان کے ایک گاؤں شاؤشان میں پیداھوا۔ چیرمین ماؤ شان میں کوہ چلتن سے بھی بلند تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی ثانوی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وہ ہونان کے دارالخلافہ شنگشا چلاگیا۔ ماؤ تعلیم حاصل کررہا تھاتو اسی دوران 1911 کو مانچو خاندان کی بادشاہت کے خلاف سن یات سین کی قیادت میں انقلابی تحریک شروع ھوگئ تو چیرمین اپنا تعلیمی سفر ادھورا چھوڑ کر اس کاروان میں شامل ہوگیا۔ 1912 کو جب سن یات سین کی قیادت میں چین ری پبلک قائم ہوئی تو ماؤ واپس اپنے سفر کی طرف گامزن ہوئے اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

1920میں اپنے استاد فلاسفر یانگ چانجی کی بیٹی ” یانگ کائی ہوئی”سے اس کی شادی ھوگئ۔ چیرمین ماؤ کمیونسٹوں کے حامی تھے اور وہ فارغ اوقات میں زور و شور سے کمیونزم پھیلاتے تھے۔ مئ1920 کو جب کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو چیرمین ماؤ اور اس کے ساتھی اس پارٹی کا باقاعدہ حصہ تھے_ جاپانی سامراج سے آزادی اور جاگیرداری کا خاتمہ اس پارٹی کا منشور تھا۔ سن یات سین جب 1925 کو وفات پاگئے تو اس کی جگہ جرنیل چیانگ کائی شیک چین کا صدر بن گیا۔ جرنیل چیانگ کائی شیک ایک نیشنلسٹ اور کٹر کمیونسٹ دشمن تھا۔ جس کی وجہ سے کومنتانگ کے اندر کمیونسٹوں اور نیشنلسٹوں کے درمیان اختلافات واضح شکل میں سامنے آگئے۔ 1927 کو چیانگ کائی ہوئی شیک نے شہروں میں کمیونسٹوں کے فعال ورکروں کے سفاکانہ قتل عام کا حکم دیاتو چیرمین ماؤ شنگھائی شہر سے فرار ہوکر کر دیھات میں چلاگیا اور اپنی تحریک کو پروان چڑھانے کیلئے کسانوں کو منظم کرنا شروع کردیا۔

1927 سے لیکر 1934 تک ماؤ کمیونسٹ گوریلا جنگجو یونٹوں کو منظم کرتا رہا جن میں اکثریت کسانوں کی تھی _ کیانگسی شہر انقلابیوں کے قبضے میں رہا جہاں سارے زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں کے حوالے کئےگئے۔ ٹیکس گٹھا،افیون،بردہ فروشی،غلامی اور بےروزگاری کا خاتمہ کیا اور زبردستی کی شادی پر پابندی لگادی گئی۔ چھ برسوں کے اندر اندر شرح خواندگی 80 فیصد تک جاپہنچی۔

چیرمین ماؤ کی اس تحریک سے اس کی بیوی متاثر ہوئی تو وہ بھی اس کاروان میں شامل ہوگئی _ 1930 کو چیرمین ماؤ کی بیوی اور محبوبہ یانگ کائی ھوئی کو انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں گولی سے اڑادیا گیا۔ دشمن کا یہی خیال تھا بیوی کے قتل سے چیرمین ماؤ ٹوٹ جائے گا اور وہ پیچھے ہٹ جائے گا لیکن دشمن مکمل طور پر غلط تھا۔ پختہ نظریہ اور بڑے مقصد کے مالک شخص ماؤ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو دنیا بھر میں سب سے ذیادہ نقصان ان ہی قوم پرست اتحادیوں سے پہنچتا رہا_ جب جرنیل چیانگ کائی شیک کے ان حربوں سے کمیونسٹ باز نہ آئے تو اس نے کمیونسٹوں پر اپناپانچواں حملہ شروع کیا۔ ماؤ کے پاس کل ملاکر ایک لاکھ اسی (180) ھزار نفری اور دو لاکھ رضاکاروں کے سرخ دستے تھے جبکہ دوسری طرف 90 لاکھ دشمن فوجی تھے_ دشمن اس حملہ میں کامیاب ہوا اور کمیونسٹوں کو اپنا مرکز چھوڑ کر چین کے دوسرے حصّے شمالی مغربی حصّے میں منتقل ہونا پڑا تاکہ دشمن کی فوج سے بچا جاسکے اور جاپان کے خلاف وطن کی آزادی کیلئے لڑا جاسکے_

تاریخ میں یہ سفر لانگ مارچ کے نام سے مشہور ہے جو
1934-35 کو کیا گیا _اس قافلے میں 90 ہزار انقلابی ساتھی جن میں 50 خواتین بھی شامل تھے_ اس قافلے نے چھ ھزار میل کا سفرطے کیا_ اس قافلے نے 24 دریا پارکئے اور 12 صوبے اس کے راستے میں آئے اور اسے دس جنگجو سرداروں کی افواج کا گھیراؤ توڑنا پڑا۔

شدت موسم کی انتہاؤں میں ،بے خوراکی،کم کپڑوں اور بغیر بستروں کی یہ فوج ہزار ساتھیوں کو بھوک کے ہاتھوں موت کی آغوش میں دے دے کر آگے بڑھتی رہی۔ لانگ مارچ میں شامل بے شمار لوگ ان پڑھ تھے جن کو ریڈ آرمی نے پڑھنا لکھناسکھایا۔ اس سفر میں خواتین نے بے سر و سامانی کے عالم میں بچوں کو جنم دیا_ ان بچوں میں کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا جن میں چیرمین ماؤ کی اپنی بچی بھی شامل تھی۔ چیرمین ماؤ کی فوج جہاں سے بھی گزرتی وہاں کے لوگوں میں آگاہی پیدا کرتی رہی اور وہاں کے زمین کو جاگیرداروں سے چھین کر کسانوں کو نوازتی گئی۔ یہ لانگ مارچ تخم ریزی کا مشین تھا _اس نے گیارہ صوبوں میں بہت سے بیج بوئے جو پھوٹیں گے _ ان سے پتے نکلیں گے پھول کھلیں گے اور آئندہ فصل دیں گے_ یانان تک پہنچتے ان سے صرف دسواں حصّہ زندہ بچا۔

1937 کو جاپان نے چین پہ جارحانہ جنگ چھیڑ دی جس سے سوویت فوجیوں نے ہٹلر کی افواج کو شکست دے کر برلن پر قبضہ کرلیا ہٹلر کو شکست برداشت نہ ھوئی تو اس نے خودکشی کرلی جس سے کمیونسٹوں کو بہت فائدہ ہوا کیونکہ ان کی لڑائی دو فریقین سے تھی ایک جاپان اور دوسری نیشنلسٹ جرنیل چیانگ کھائی شیک کی فوج سے۔ 1945 کو چیانگ کھائی شیک نے کمیونسٹوں پر ایک مرتبہ پھر حملہ کردیا یہ جنگ دو سال تک چلتا رہا اور آخرکار کمیونسٹوں نے دشمن کو ہرادیا کیونکہ اس مرتبہ کمیونسٹوں کی ریڈ آرمی پہلے سے زیادہ مضبوط تھی۔

آخر کار 1949 کو چین کے تمام بڑے شہر آزاد کرالئے گئےاور چین میں کمیونسٹوں کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کمیونسٹ دو دہائیوں تک دیہات میں رہنے کے بعد شہروں میں لوٹ آئے_ کمیونسٹ حکومت کو عوامی فوج ،محب وطن طبقہ ،کسانوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے بھاگنے کے بجائے کمیونسٹوں حکومت کو تسلیم کرلیا_

یکم اکتوبر 1949 کو چیرمین ماؤ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کردیا۔ بقول چیرمین ماؤ “وہ کروڑوں لوگ جو سچے دل سے انقلاب کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں آہنی فصیل ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ بالکل نہیں توڑ سکتی”

شاہ محمد مری اپنی کتاب ” ماؤ زے تنگ” میں لکھتی ہے کہ “ماؤزے تک عالی تاریخ کا درخشاں ستارہ ہے ۔ کوتاہیاں اور مظالم سرزد ہونے کےباوجود چین کی نجات دہندہ پارٹی کا بانی اور سوشلزم کا معمار ہے _یہ واضح کرنا بہت ضروری ہےکرثقافتی انقلاب ماؤ کی زندگی کا پورٹریٹ نہیں ہے_ اس کی زندگی کی اصل اور مستقل تصویر انقلاب ہے۔ وہ انسانی برادری کو ایک ایسا چین بخش گیا جہاں نہ بادشاہ ہیں نہ درباری ، نہ کاہن ہیں نہ فیوڈل لارڈز__ بس خلق خدا ہے اور ان کا راج ”

پبلو نرودا نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ “ماؤ کی سیاسی شخصیت سے کون انکار کر سکتا ہے جو ایک آرگنائزر ہے عوام کو آزاد کرنے والی عظیم انسان ہے_میں اس کی رزمیہ تقدیس سے کیسے متاثر نہ ہوتا ، اس کی سادگی سے کیسے متاثر نہ ہوتا جو کہ اس قدر
شاعرانہ ہے، اس قدر درویشانہ ہے اور اس قدرقدیم ہے۔”

ماؤزے تنگ کی زندگی اور تعلیمات بنی نوع انسان کےلیے عظیم اہمیت رکھتےہیں ۔ فاشزم کو شکست دینے ،نو آبادیانیت کی زنجیریں توڑ دیئے اور غلامانہ زندگی گزارنے والے فاقہ کش چینیوں کے اندر سوشلزم تعمیر کرنے والے اس عظیم انسان کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

آخری عمر میں چیرمین ماؤ کی صحت گرتی گئی اور وہ اپنے حکومت کے قیام کے 27 سال بعد 83 برس کی عمر میں 1976 کو پیکنگ میں انتقال کرگئے۔ وہ 41 سال تک دنیا کی سب سے بڑی انقلابی پارٹی کا چیرمین رہا۔ چیرمین ماؤ کی زندگی بہادری اور شجاعت کے کارناموں سے بھری پڑی ہے._


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں