پنچاب کے دارالحکومت لاہور میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے زیر اہتمام لبرٹی چوک میں میڈیکل سٹوڈنٹس پر کوئٹہ میں ہونے والے تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
جس میں بڑی تعداد میں بلوچ طلباء کے علاوہ پنجابی، پشتون طلباء اور لیفٹ نظریات کے افراد بھی شریک ہوئے۔
مقررین نے تقریریں کرتے ہوئے طلباء ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کی اور کہا ایک طرف بلوچستان ریاستی پالیسیوں کی وجہ پسماندگی کا شکار ہے اور دوسری طرف ریاست نے وہاں ایسی صورتحال بنا دی ہے کہ اگر کوئی اپنے بنیاد حقوق پر بھی بات کرئے تو انہیں جبر و تشدد، گرفتاریوں اور حتیٰ کہ گمشدگیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود بلوچ اور پشتون طلباء پڑھنا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے ہی احتجاج کررہے تھے لیکن ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریاں کی گئیں۔
ایک طرف حکمران کہتے ہیں کہ سی پیک بلوچستان میں ترقی لائے گا لیکن یہ کیسی ترقی ہے جو سرمایہ کے مفاد کو تو ہموار کررہی ہے لیکن اس خطے کے نوجوانوں کو تعلیم کے لیے دربدر بھٹکنا پڑتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ ہم طلباء کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گئیں اور حکمرانوں کو طلباء مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے گا لیکن یہ تشدد اور گرفتاریاں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جو ہم پر جنگ اور تشدد مسلط کرتا ہے اور ترقی کے نام پر ہمیں بے روزگار اور بے گھر کرتا ہے۔اس لیے اس نظام کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اس لیے طلباء کو اپنی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے محنت کشوں اور مظلوم پرتوں سے جڑنا ہوگا یوں ہی ہم نہ صرف حکمران طبقہ کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرسکتے ہیں بلکہ اس نظام کے خلاف ایک متبادل بھی تشکیل دئے سکتے ہیں۔