اغواء نما گرفتاریوں کیخلاف کل سوشل میڈیا مہم چلائے جائے گی – بی ایس او آزاد

201

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کراچی سے لاپتہ کیے گئے بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ، نصیر احمد اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کے ریاستی فورسز کے ہاتھو ں اغواہ نماگرفتاریوں کو ایک مہینے مکمل ہونے پرکل بتاریخ15دسمبر کو سوشل میڈیا آگائی مہم چلائی جائیگی۔

واضح رہے کہ بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ، نصیر احمد اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو ریاستی فورسز نے 15دسمبر کو کراچی سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے ان کے گرفتاریوں کو ایک مہینے گزرنے کے باجود ان کو نہ منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے خاندان کو کوئی معلومات دیے جارہے ہیں جبکہ اس سے قبل 28اکتوبر کو کراچی سے ریاستی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن نواز عطاء ، کمسن طالب عالم آفتاب بلوچ و دیگر ساتھ نوجوان طالب علموں کو بھی تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے ۔ تنظیم کے مرکزی رہنماؤں اور نوجوان طالب علموں کے جبری گمشدگیوں کے خلاف بین القوامی انسانی حقوق کے تنظیموں کو تحریری صورت میں آگاہ کردیا اور ان کے ماروائے عدالت گرفتاریوں کے خلاف کیس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ادارے میں بھی جمع کیے گئے ہیں جبکہ دنیا بھر میں بی ایس او آزاد کے رہنماؤں سمیت تمام بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے مختلف پروگراموں کے تحت آگائی مہم بھی چلایا جارہا ہے ۔

ترجمان نے کہا کہ بین القوامی سطح انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے تنظیمیں اوردنیا کے بااثر ممالک بلوچستان میں پاکستان کے بربریت اور خطے میں اثرانداز ہونے والے مذہبی انتا پسندانہ پالیسیوں سے بخوبی واقف ہیں دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے رویوں میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتے جارہے ہیں لیکن چین اپنے توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت اس خطے میں پاکستان جیسے مذہبی انتاپسند ریاست کو مالی و عسکری مدد کرررہا ہے جو پورے خطے کیلئے تبا ہ کن ثابت ہوگا۔علاوہ ازیں بلوچستان کے علاقے مشکے اور راغے میں جاری آپریشن گزشتہ دوہفتوں سے تسلسل کے  ساتھ جاری ہے جس میں بلوچ رہنماڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے بہنوں سمیت پچاس سے زائد خواتین و بچوں کو گرفتار کرکے آرمی کیمپ منتقل کیا جبکہ اس طرز کے آپریشن کو بلوچستان بھر میں وسعت دی جاری ہے، خاران ، مستونگ اور دشت کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن ، لوگوں کو گرفتار کرکے فوجی کیمپ منتقل کرنا اور فوجی آمد و رفت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے پیش نظر یہ خدشہ لاحق ہے کہ ان علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیوں کا آغاز کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ریاستی اداروں کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیوں کا آغاز کیا جائے گا جس پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد کیا جارہا ہے ۔