اور وہ عشق کی آخری چوٹی سر کر لیتا ہے ۔ریاست خان بلوچ

650

اور وہ عشق کی آخری چوٹی سر کر لیتا ہے

تحریر:ریاست خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوادر میں اگست کے مہینے کا موسم قدرے خوشگوار ہوتا ہے، شام کے وقت شمال سے آنے والی تازہ ہوا کے جھونکے، بحر بلوچ کی نمی سمیٹے جب انسانی جسم سے ٹکراتی ہیں تو تر و تازگی کا ایک انوکھا سا احساس دے جاتی ہیں۔ ان تازہ ہوا کے جھونکوں کو اپنے سینے میں جذب کرتا ایک 21 سالہ نوجوان سیاہ رنگ کی شال اوڑھے بلوچ وارڈ پر بننے والی ایک نئی سڑک کے ایک طرف موجود مٹی کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بے چینی، مسرت اور اعتماد کے ملے جلے جزبات لئے بیٹھا ہوتا ہے ، اس کے بال شمال سے آنے والی سمندری ہواوں کے رحم و کرم پر اڑ رہی ہوتی ہیں، اس کے قریب ہی چند ماہی گیر نوجوان ایک کشتی پر بیٹھے شغل و مزاح اور سمندر میں دوران شکار بیتے قصوں کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی موجود خالی زمیں پر کچھ بچے فٹبال کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں، سامنے موجود سڑک گو کہ کوئی اتنی مصروف نہیں لیکن اس پر سے گزرنے والی گاڑیوں کے پہیوں سے اٹھنے والی مٹی نے ہوا کو گردآلود کیا ہوا ہوتا ہے، مٹی کے ٹیلے پر بیٹھا وہ اکیس سالہ لڑکا اپنے ارد گرد کی ہر حرکت پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے کانوں میں بے روزگاری، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کرنے والے سیکنڑوں شہریوں کی یک آواز ہو کر بلند کئے نعرے بھی پہنچ رہے ہوتے ہیں۔

پاس ہی کشتی پر بیٹھے نوجوان، فٹبال کھیلتے بچوں اور راہ گیروں کی نظریں جب اس پر پڑتی ہیں تو وہ اس کی وہاں موجودگی میں کوئی پر اسراریت محسوس نہیں کر پاتے لیکن وہ 21 سالہ نوجوان اُن سبھی کے بظاہر معمول کے اعمال و حرکات کے پیچھے چھپے غیر معمولی احساسات کو محسوس کرسکتا ہے، وہ جب ان کی طرف دیکھتا ہے تو ان کے ہنسی کے پیچھے موجود غیر یقینی کے احساس کو بھانپ سکتا ہے، وہ کھلیتے بچوں کے اندر موجود ایک پراسرار ڈر محسوس کرتا ہے، روایتی بلوچی لباس پہنے اور اپنے دوپٹوں سے اپنا چہرہ ڈھانپے راہ گیر عورتیں بھی جب اس کے پاس سے گزرتی ہیں تو وہ ان کے عمومی تاثرات میں موجود بے بسی کو بھی محسوس کر پاتا ہے، گویا ان سبھی کو معلوم ہو کہ ان کے مستقبل کو تباہ کرنے، ان کے ارمانوں کا گلہ گھونٹنے، ان کے شہر اور ان کی مٹی سے زبردستی ان کا تعلق توڑنے کیلئے آنے والے وقتوں میں کوئی بڑی قوت انتظار میں بیٹھی ہو اور جس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو، جس کے سامنے سبھی بے بس ہوں۔

مٹی کے ٹیلے پر بیٹھا یہ نوجوان صبح سے شہر کے کسی تنگ گلی میں موجود اپنے خفیہ ٹھکانے میں اپنی فوجی زندگی کے آخری مشن کی تیاری میں مصروف رہا ہے، وہ مشن کے دوران استعمال ہونے والی اشیاء کا جائزہ لیتا رہا ہے، ایکسپلوزو سے لے کر اسے ڈیٹونیٹ کرنے کے تمام آلات، ان کی مناسب فٹننگ تک وہ ہر چیز کا جائزہ لیتا رہا ہے تاکہ جب وہ اپنے حدف کی طرف بڑھے اور اسے نشانہ بنائے تو کسی بھی وجہ سی اسے ناکامی نہ ہو، اس سے پہلے شاید وہ اس جگہ جہاں وہ ابھی بیٹھا ہے اور جہاں اسے اپنی زندگی کا آخری فوجی مشن سرانجام دینا ہے کا معائنہ کرنے بھی گیا ہو۔

وہ صبحِ ہی سے انتہائی بے صبری کے ساتھ شام ہونے کے انتظار میں تھا، اور جب اسے اپنے خفیہ ٹھکانے سے نکلنے اور ٹارگٹ کی جگہ تک پہچنے کے احکامات ملے تو وہ فخر اعتماد و خوشی کے ملے جلے جذبات سے لبریز بارودی مواد سے بھرا جیکٹ پہنتا ہے اور اپنے جسم پر لمبی سی شال اوڑھ کر اپنی زندگی کے آخری سفر پر چل نکلتا ہے۔ یہ اکیس سالہ نوجوان مظبوط حوصلوں، پختہ ارادوں اور عزم بہادرانہ کا مالک سنگت سربلند ہوتا ہے۔

سنگت سربلند چونکہ حساس ذہنیت کے مالک انسان ہوتے ہیں اسلئے وہ ہوش سنبھالتے ہی اپنی وطن پر چل رہی ہواؤں میں غلامی کی گند سونگھ لیتے ہیں، وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو ایک عجیب سی گھٹن کا شکار پاتے ہیں، اسے ہر طرف غیر یقینی ،خوف و ہراس دکھائی دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے کردار کی تشکیل میں اس کے نام کا بڑا اثر ہوتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہ ہو پر سنگت سربلند کے معاملے میں نام اور کردار کا بہترین تال میل موجود رہا ہے، پتہ نہیں کیا سوچ کر اس کا نام سربلند رکھا گیا ہوگا لیکن وہ اس اہل ضرور ہوا کہ اپنے کردار کو اپنے نام کے مطابق ڈھال سکے۔

کم عمری سے ہی ہمیشہ اس کا شمار اس اقلیت میں ہوتا رہا جن کا خوف و ڈر کے مارے سر کبھی بھی تسلیم خم نہ ہوا۔ خوف، بزدلی، بے حسی، بدحواسی اور گھبراٹ سے مبرّا سربلند کا سر ہمیشہ بلند ہی رہاہے۔ اس کا سفر بہت ہی کٹھن گزرا ہے، ہزار ہا مصائب اور تکالیف سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچا تھا۔ اس کے نرم اور نازک پیروں نے وطن کے پرخار راستوں میں سفر کرتے ہوئے چھالے بھی دیکھے ہیں، اس کا خوبصورت چہرہ برفانی موسموں میں سرد ہواؤں کی نظر ہو کر لال بھی پڑا ہے، وہ انتہائی سرد راتوں کو وطن کے برفیلے پہاڑی چوٹیوں میں ایک عدد شال اوڑھ کے بھی سویا ہے، گرم دوپہری میں سورج کی تپش برادشت کرتے ہوئے، پسینے سے شرابور پورا دن پیدل بھی پھرتا رہا ہے۔لیکن اس کے سینے میں دھکتے آزادی کے شعلوں کو ٹھنڈک دینے کیلئے یہ سب کافی نہیں تھا،

پھر ایک دن سربلند کی ملاقات ہمارے عہد کے ابراھیم “اَسلم” سے ہوتی ہے، یہ ملاقات اس کی زندگی کا اہم ترین موڑ ہوتا ہے، اس دن کے بعد اسے اپنے وطن سے عشق کی انتہا تک پہچنے کا راستہ مل جاتا ہے۔

وہ اگلے تین سالوں تک صبر آزما انتظار کے بعد اس شہر میں عشق و انقلاب کو خون وفا پلانے پہنچا ہے۔

اس وقت کہ جب سر بلند بلوچ وارڑ میں سڑک کنارے مٹی کے ٹیلے پر بیٹھا ہے اور شمال سے سمندر کی نمی سمیٹے تازہ ہوا کے جھونکے اس کے جسم سے ٹکرا رہی ہیں تو گویا اسے احساس ہو رہا ہے کہ ہوا کے جھونکے اس سے باتیں کر رہی ہوں، مانو کہ ہوا کے یہ جھونکے اسے اپنا رہی ہوں، اس سے اپنا تعارف کررہی ہوں، اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہوا کے جھونکے اپنی سراسرہٹوں میں اس سے سرگوشیاں کر رہی ہوں کہ ہم میں بحر بلوچ کی نمی کے ساتھ ساتھ غلامی کی گند بھی موجود ہے جسے اپنی خون کی خوشبو سے مٹانے تم سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے یہاں تک آئے ہو۔

سر بلند اپنا سر بلند کر کے جب شہر کی طرف دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ جیسے یہ شہر پتہ نہیں کب سے اس کی راہ تکتی رہی ہے، مانو کہ اس شہر کو پہلے ہی سے اس کی آمد کی بھنک لگ گئی ہو اور جیسے مدتوں بعد کوئی ماں آنے والے اپنے اولاد کو بھاؤ میں بھرنے کیلئے بےتاب ہو ویسے ہی یہ شہر بھی اسے اپنی بھاؤ میں بھرنے کیلئے بےتاب ہے، سربلند کے کانوں میں دھرنے پے بیٹھے شہر کے پیاسوں کی یک آواز ہو کر بلند کئے گئے نعرے جب پہنچتے ہیں تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ آوازیں شہریوں کی نہیں بلکہ خود اس شہر کی ہیں جو اپنے بیٹے کو صدا دے کر اپنی تبائی و بربادی کی داستان سنا رہی ہو۔
سربلند کا سر بلند ہوتا ہے اور وہ شہر کی جانب دیکھ رہا ہوتا کہ اسے اپنا حدف آتا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہ انتہائی پھرتی کے ساتھ اپنے حدف کی طرف دوڑتا ہے اور پہاڑی باز کی طرح اس پر جھپٹ پڑتا ہے جس کے ساتھ ہی پورا شہر لرز اٹھتا ہے، عین اس جگہ پے آسمان سیاہ چادر اوڑھ لیتی ہے، اکیس سالہ سربلند کے جسم سے اس کا ہر ایک ریشہ الگ ہوجاتا ہے اور گوادر کی مٹی ان ریشوں کو جذب کرتے ہوئے سربلند کو اپنی بھاوں میں بھر لیتی ہے۔ جس کے ساتھ اس اکیس سالہ نوجوان کا طویل انتظار اختتام پذیر ہوتا ہے اور وہ عشق کی آخری چوٹی تک سر کر لیتا ہے،

اب جب کے سربلند کا کوئی ہم خیال اس شہر دردمنداں کو جائے گا اس کے ساحلوں پر بیٹھے گا، اور جب شمال سے آنے والی ہوائیں اس کے کانوں کے پاس سے سرسراہٹ کرتی گزریں گی تو وہ ان سرسراہٹوں میں شامل سربلند کی ہنسی کو ضرور محسوس کر سکے گا۔
گو کہ بحر بلوچ اب بھی آزاد نہیں، ابھی بھی وہاں کی ہواؤں میں غلامی کی گند باقی ہے لیکن اب کے وہ ان ہواؤں میں غلامی کے گند کے ساتھ سربلند کے پاک خون کی خوشبو بھی سونگھ سکے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں