گذشتہ دنوں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مقابلے میں سات افراد کو مار دیا گیا ہے۔سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا مارنے والوں کا تعلق بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ سے ہے۔
جعلی مقابلے میں مارے جانے والوں میں سے پہلے دو کی شناخت لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی ہے مزید ایک شناخت لاپتہ افراد کے طور پر ہوگئی ہے۔
آج شناخت ہونے والے شخص کی شناخت عبدالحاد ولد رستم سکنہ پروم پنجگور کے نام سے ہوئی ہے۔
خاندانی ذرائع نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کردی ہے۔ ذرائع نے بتایا عبدالحاد کو فورسز نے رواں سال جنوری کے مہینے میں گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا اور گذشتہ روز جعلی مقابلے میں اسے قتل کیا گیا جبکہ خاندان کو اطلاع دی ہے کہ آئیں اور لاش کو لے جائیں۔
یاد رہے رواں سال سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے میں پندرہ سے زائد افراد قتل ہوئے۔
26 اگست کو جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے صدام حسین کی ہمشیرہ نے گذشتہ روز ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے صدام حسین کو 27 اپریل 2018 کو کراچی ملیر سے اس وقت لاپتہ کردیا جب وہ دبئی سے چھٹیاں منانے آئے ہوئے تھے-
صدام حسین کے ہمراہ سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے غنی بلوچ بھی پہلے سے زیر حراست تھے سی ٹی ڈی کا دعوی غلط ہے –
اس حوالے سے گذشتہ روز لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جوائنٹ سیکریٹری سمی بلوچ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں سی ٹی ڈی نے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا ایک نیا تسلسل شروع کی ہے اور جعلی مقابلے میں ان لوگوں کو قتل کررہا ہے جو دو یا تین سال سے لاپتہ ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کی ہے کہ آنے والوں دنوں میں سی ٹی ڈی مزید لاپتہ افراد کو اسی طرح جعلی مقابلے میں قتل کریگا انہوں لاپتہ افراد کے لواحقین سے اپیل کی ہے جہنوں نے اپنے لاپتہ افراد کی نام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس رجسٹرڈ نہیں کی ہے وہ جلد از جلد ان لوگوں کے نام رجسٹرڈ کروائیں۔
انہوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی علاقائی سربراہ یا کوئی اور تمہیں روک رہا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کی نامیں رجسٹرڈ نہ کریں یا ایف آئی آر نہ کریں تو آپ کے لوگ بازیاب ہونگے تو آپ لوگ اپنے پیاروں کے لاشوں کی انتظار کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن نوید احمد بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئےحالیہ کچھ وقتوں سے جتنے بھی لوگ سی ٹی ڈی نے مارے ہیں وہ سب وہی ہیں جن کے لواحقین آگے نہیں آتے ہیں ان کی بازیابی کے آواز نہیں اٹھاتے ہیں اور وہ اس ڈر سے خاموش ہوتے ہیں کہ ان کے آواز اٹھانے سے ان کے پیاروں کو کہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ پائے اور اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فورسز انہیں مار دیتا ہے۔