کرونا وائرس کا تنازعہ، الجھاؤ نہیں سلجھاو ۔بختیار رحیم بلوچ

150

کرونا وائرس کا تنازعہ، الجھاؤ نہیں سلجھاو

تحریر:بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نومبر دوہزار انیس کو چین کے صنعتی شہر ووہان سے رونما ہونے والا وائرس کرونا یا کووڈ 19 کافی مہلک اور خطر ناک تھا لیکن اسکی خوف اس وائرس کے اثرات سے دوگنا خطر ناک اور گھمبیر تھا۔ یہ وائرس وجود میں آتے ہی ساتھ عجیب کشمکش کے شک ،شبہات، الجھن اور تنازعات ساتھ لے آئی۔

جب چین میں وائرس کےپہلے کیس کی تصدیق ہوتے ہی اسکے کیسز فوراََ بڑھنے لگے اندازہ ہوا کہ یہ وائرس کافی تیز پھیلنے والا وائرس ہے۔

اس لئے اسے سب سے جلد ایک جسم سے دوسرے جسم میں مبتلا ہونے والا وائرس سمجھ کر ملک میں لاک ڈاون نافذ کرکے عوام کو غیر ضروری کاموں سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کی گئی۔

عوام حکومتی ہدایت ہر عمل در آمد کرکے گھروں تک محدود ہوگئے۔ جب مزید تحقیق اور تجربہ سے اندازہ ہوا کہ یہ وائرس کچھ دن تک جسم میں موجود رہتا ہے اپنے علامات کو ظاہر نہیں کرتا۔ جب اسکی علامات ظاہر ہوجاتے ہیں تو اسکے علاج اور صحت یابی ناممکن ہوجاتی ہے تو چین نےایک نئی حکمت عملی اپنا کر کروڑوں آبادی والے شہروں کو ایک ہی دن میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے کا کام شروع کیا۔

ٹیسٹ کے دوران جس شخص کے جسم میں وائرس پائے تو اسے قرنطینہ میں ڈال کر علاج معالجہ شروع کر دیا۔

جیسے چین میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھے لگی۔ ویسے اس پر تجربہ، مشاہدہ، مفروضہ تیز کرتے رہے روز نئی نئی شک ،شبہات طنز ،تناؤ تضاد سامنے آتے رہے۔

جب تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات سامنے آئے کہ یہ وائرس کی آسانی سے ایک جسم سے دوسرےجسم تک منتقل ہونے کی وجہ لوگوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ اور گلے ملانے اور ایسے جگہ بیٹھنے سے ہے جہاں کوئی متاثرہ مریض بیٹھا ہے اس بات پر مزیدپریشانیاں بڑھنے لگے کیونکہ یہ وائرس کی ایک خطرناک وجہ جسم میں مبتلا ہونے کے کافی دن تک علامات ظاہر نہیں ہونے کا تھا۔

اس لئے حکومتی سطح پر ہاتھ اور گلے ملانے ،ایک دوسرے کے قریب میں رہنے سے منع کیا گیا لوگ ایسے چیز یا جگہ پر ہاتھ رکھنے یا بیٹھنے سے ڈرنے لگے کہ جہاں کسی دوسرے نے ہاتھ رکھا ہوا ہو۔

چین کی یہ ساری حکمت عملی نے محض ڈھائی، تین مہینے تک چین کو اس وائرس سے فتح دلوائی معمولات زندگی کو دوبارہ بحال کروا دیئے۔

جب یہ وائرس چین سے نکل کر امریکہ پہنچ کر اپنی تباہی مچانے لگے تو امریکہ نے وائرس کو مصنوعی وائرس کانام دے کر چین پر الزام لگایا کہ چین نے اپنے لیباٹری میں تیار کی ہے ۔اسے دنیا میں پھیلا کر انسانی بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چین نے امریکہ کے الزام کو تردید کرتے ہوئے الٹا امریکہ پر الزام ڈالا اسے امریکہ نے تیار کرکے چین میں پھیلا دیا ہے تاکہ چین کو معاشی اور سماجی نقصان پہنچایا جائے ۔

یہاں تک مائکروسافٹ کے بانی بل گیٹس تک کو معاف نہ کیا اس پر الزام لگائے گئے کہ اس نے اس وائرس کو مصنوعی طور بنا کر پھیلایا ہےتاکہ وہ ویکسین بناکر دنیا اسکی ویکسین خرید کر وہ مزید پیسہ کمائے۔

اسی طرح یہ وائرس دنیا کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں میں مختلف قسم کے شک و شبہات جنم دے کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے گامزن تھا۔

جب یہ وائرس ایران پہنچایا تو ایرانی حکومت نے بنِا سوچے اور تحقیق کے وائرس کو مصنوعی وائرس قرار دے کر امریکہ پر الزام لگایا کہ اسے امریکہ نے اپنے لیباٹری میں بنا کر دنیا میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے ۔

دنیا کے ہر ملک اس وائرس پر تحقیق تجربہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ اسکا ویکسین بناکر اسے ختم کروا دیں لیکن ویکسین نہ ہونے کی وجہ اسکی پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے دنیا کے ہر ملک نے لاک ڈاون کو سب سے موثر زریعہ سمجھ کر اپنے ملک میں نافذ کی ۔ ماسک کا استعال ضروری قرار دیا، اجتماعی مقامات پر مکمل پابندی لگا کر ویکسین تیار ہونے سے پہلے اسے اپنے قابو کروا دیا۔

لیکن دنیا کے غریب، ناخوانندہ ،کم ترقی یافتہ ممالک اور معاشرے آج تک عجیب غریب الجھنوں میں مبتلا ہونے کے ساتھ اس وائرس سے بھی نہیں نمٹ پا رہے ہیں ان ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے ۔

جب چین سے یہ وائرس سے مثاثر ہوکر مرنے والوں کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا میں وائرل ہورہے تھے تو ویڈیو ہمارے ملک اور معاشرے کے مذہبی طبقہ و فکر کے لوگوں کے آنکھوں کے سامنے آتے تو وہ اسے دیکھنے کا گوارہ نہیں کرتے اس وائرس سے متاثر لوگوں کی موت کو صرف حرام جانور کے گوشت کھانے ،کچھ لوگ اسے یہودیوں کو لگنے والی وائرس مان کر یہ چیلنج کرتے تھے یہ مسلمان کو نہیں لگ سکتا۔کچھ لوگ اسے یہودیوں اور انگریزوں پر اللہ کی عذاب اور امتحان سمجھ کر خود کو اسلام کے پیروکار سمجھ کر اس وائرس سے محفوظ سمجھ رہے تھے۔ کچھ لوگوں کاخیال تھا، یہ وائرس مصنوعی ہے اسے امریکہ چین ، اور اسرائیل نے مسلمان کو اپنے مذہب سے دور کرنے کی سازش کے طور پر بناکر پھیلایا ہے۔

لیکن سیاسی طبقے اور سوچ کے لوگوں کے شک، شبہ کے مطابق یہ وائرس ایک ملک دوسرے ملک کی سماجی ،معاشی حالات کو سازش کے زریعے نقصان پہنچانے کی کوشش میں بر سر پیکار ہیں۔

سرمایہ دارانہ طبقے کے شک ۔شبہ و فلسفے کے مطابق یہ عالمی معاشی نقصان کے سازش ہے تاکہ ایک ملک دوسرے ملک کو معاشی نقصان دے کر اسے خسارے میں ڈال دے۔

اسی طرح مختلف باتیں سننے اور پڑھنے کو مل جاتے بہرحال ۔یہ دنیا کی من گھڑت فریب اور پالیسی تھے,یاکہ سچ پر مبنی مشاہدے اور تجربے اسے مجھ جیسے عام شہری نہیں سمجھ سکتے۔

جب یہ وائرس چین میں بڑے زور اور شور سے تباہی مچا رہا تھا اس وقت خبریں سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہے تھے روزانہ لاکھوں افراد متاثر ہوکر مر رہے تھے۔

توپاکستان میں مذہبی نظریہ کے لوگ اپنے ہاتھ داڑھی پر پھیرتے ہوئے کہتے تھے ہم مسلمان ہیں ہمیں اس وائرس سے کوئی چیلنج اور خطرہ نہیں یہ امریکہ اور اسرائیل کے اسلام دشمن سازشیں ہیں ۔وہ مختلف سازشیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنے سوچ اور فلسفے کی طرف آنے پر مجبور کریں۔ انہیں اسلام کے سوچ اور نظریہ سے دور کئے جائیں۔

لیکن یہ بے دین ، بے ایمان اور غیر مہذب وائرس کسی کی سننے کی پرواہ کرتے بغیر اپنا ہدف پر پہنچنے کا عمل کو جاری رکھ کر گامزن تھا۔

اسے حلال، حرام، مسلمان ، عیسائی،ہندو، سکھ ، اور بت پرست اور نہ کسی کی شک، شبہات، طنز، الزام ،مصنوعی یاکہ قدرتی وائرس ماننے یا نہ ماننے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

یہ لوگوں کے سوچ تھے وہ اس بیماری کو یہودیوں کی بیماری قراد دے کر اپنے سینے پر مّکا مار کر اس وائرس کو چیلنج کرتے تھے۔

ہاں اس بات پر کوئی شک ہی نہیں وہاں کے لوگ بہت زہریلی اور حرام جانور کے گوشت کھاتے تھے۔ یہ وائرس کےوجود زہریلی اور حرام جانور کے گوشت کے کھانے سے آئی تھی۔

جب یہ وائرس امریکہ،اٹلی ۔اسپین ،عراق۔بغداد سے ہوتا ہوا ہمارے ہمسایہ ملک ایران تک آ پہنچا تو پاکستںانی میںڈیا اپنے کان کھول کر باہر ممالک کی خبروں پر لگا رکھے تھے کب کیا سن کر اسے بڑھا چڑھا کر اپنے میڈیا میں کوریج دے کر اپنے ملک میں لوگوں کے دلوں میں اس وبا کا غم مزید ٹھونس دیں

ایران میں کرونا وائرس کی آمد اور اس سے متاثرہ مریض اور اموات کا سن کر پاکستانی حکمران اور عوام کے دل میں کوئی شک و شبہ نہ رہ سکے اب یہ وائرس وہیں دم توڑ کر پاکستان میں نہیں آئے گا۔

ہر ایک کو اس وائرس کا خوف اپنے سر پر منڈلاتے نظر آنے لگا کیونکہ ایران میں داخل ہوا وائرس کا اب ہدف پاکستان ہی تھا۔

تو پاکستان نے چین اور باقی ممالک کی طرح کام لیتے ہوئے لاک ڈاون پر عمل کیا لوگوں کو گھروں تک محدود کیا۔ یہ سوچا ہی نہیں کہ چین نے تین، ساڑھے تین مہینے تک لاک ڈاون لگایا تھا تو وہ امیر ملک تھا وہاں کے عوام چار مہینے نہیں بلکہ چار سال گھروں میں محدود ہوکر رہیں انہیں کھانے پینے اور زندگی کے دوسرے ضروریات کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ میرے عوام غریب اور دھاڑی دار ہیں وہ ایسے لاک ڈاون لگانے سے اگر کرونا وائرس سے بچ جائیں تو بھوک سے مرینگے ۔

یہ سب سوچے بغیر پاکستانی حکومت نے چین اور دوسرے ملکوں کو دیکھ کر کام سر انجام دینے لگے

کرونا وائرس اپنی رفتار کے مطابق سفر پر گامزن تھا اسی طرح ہوتے ہوتے پاکستان میں ایک دو کیسز کے رپورٹ ہونے کے بعد پاکستانی میڈیا بلا ججھک پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر اور مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کرنے لگے۔

لیکن کرونا وائرس سے متاثرہ اور اموات کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ جتنا پاکستانی میڈیا بڑھا چڑھا کر کوریج دے رہا تھا ۔

جب اپنے ارد گرد عوامی سطح کرونا کا نام نشان نہ دیکھنے سے مزید خوش ہوگئے کہ کرونا مسلمان اور اسلام کے پیروکار سے کوئی تعلق ہی نہیں ہمارا ملک خواہ مخواہ مغربی سازش کا حصہ بن کر اپنے عوام میں خوف پھیلا رہا ہے ۔

یہاں تک بڑے سیاسی شخصیت کرونا اور چین پر مزاق اڑا کر یہ کہنے لگے کرونا چین سے پیدا ہوا ہے ۔چین کی ہر پروڈکٹ ناپائیدار ہوتے ہیں ۔اس میں پیدا ہونے والا کرونا وائرس زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی ۔

لیکن چین سے پیدا ہونے والے یہ وائرس نے لوگوں کے مفروضہ کو کچل کر ناکام اور بے بنیاد قرار دیا ۔ اپنے پائیدار صلاحیتوں کی ساتھ پھیلتا رہا یہاں تک یہ وائرس نے دنیا کے ایک سو ستانوے ممالک کو اپنے آہنی پنجے کی قابو میں ڈال دیا ۔

روز نئے نئے تجربہ ، تحقیق، مفروضہ اور مشاہدہ سامنے آنےلگے۔ اسی دوران ایران میں کرونا کے متاثریں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئے تو پاکستان سے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے مذہبی رسومات اور پیر مرشدوں کی مزارات کے زیارت کے لئے ایران عراق اور بغداد میں مصروف تھے۔

جب وہ واپس آئے تو کچھ دن بعد پاکستانی میڈیا میں ایران سے آئے ہوئے ایک شخص سے اس وائرس کی تصدیق ہوئے اسکے بعد پنجاب اور سندھ سے کچھ شیعہ زائریں سے وائرس کے تصدیق ہوئی۔

شیعہ زائریں میں کرونا کا تصدیق ہونے کے بعد کچھ زائریں تو اپنے اپنے گھروں میں پہنچ چکے تھے کسی کو پتہ ہی تھا کون کون سا شیعہ زائریں تھا کہاں سے آکر کہاں گیا۔

عوامی سطح پر اسی دوران حکومت اور انتظامیہ کو تنقید کرنے لگے۔شیعہ زائریں آزادانہ طور پر ملک میں داخل ہو رہے ہیں اگر ان میں کرونا وائرس موجود ہو تو یہ لوگوں سے ملتے رہینگے چند ہفتے بعد پورے ملک کو کرونا اپنے لپیٹ میں لے گئی

اسی دوراں حکومت نے ملک میں نئے داخل ہونے والے زائرین کے لئے بلوچستان میں قرنطینہ قائم کرکے انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔

بلوچستان میں شیعہ زائریں کی قرنطینہ کا قائم کرکے رکھنے کا عمل کو بلوچ سیاسی حلقے کی جانب بلوچ نسل کش پالیسی اور بلوچستان میں اس وائرس کو دعوت دینے کا مترادف سمجھ کر غم اور غصہ کا اظہار کرنے لگے۔

لیکن زائریں کو قرطینہ میں نہ رہنے کی اچھی سہولت دی تھی نہ کرونا کا کوئی ایس او پیز کا عمل درآمد کا اچھا انتظام تھا بس انہیں خیمہ لگا کر دیئے تھے۔ وہ صحیح طریقے سے کھانے پینے اور بیت الخلاء جیسے سہولیات تک سےمحروم تھے ۔

اس عمل کا پاکستانی حکام اور انتظامیہ کرونا کا ایس او پیز کا نام دے رہے تھے حقیقت میں وہاں ایس او پیز کی نام کی کوئی چیز نہ رہی تھی اس عمل سے کرونا کے بچنے سے زیادہ بڑھنے کے امکانات تھے کیونکہ چھوٹی اور تنگ جگہ میں زیادہ افراد کو رکھنے سے ایس او پیز کی کوئی نام نہ رہ جاتی ہے ۔اس سے لوگوں کو ایک دوسرے سے متاثرہ ہونے کا زیادہ خدشہ پیدا ہوتا ہے ۔عوامی تنقید اور زائریں کو مشکلات سے نمٹنے کے لئے منت سماجت۔ گریہ زاری سے قرنطینہ ختم کرکے انہیں آزاد چھوڑ دیئے گئے۔

اسی دوران پاکستان میں کرونا کے متاثر مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتے رہے پاکستان نے چین اور باقی ممالک کی طرح مکمل لاک ڈاون پر عمل کرکےکرفیو نافذ کر دیا۔

وائرس کا جلد ایک جسم کا دوسرے میں منتقل ہونے کا عمل کو قابو پانے کے لئے عوامی اجتماعی جگہ مکمل طور پر بند کر دیئے گئے گاڑیوں میں دس افراد کے جگہ دو افراد سفر کرسکتے تھے اسکول ،شادی حال،ہوائی اڈے ۔،شاپنگ محل ،بینک ،پیر ومندر ،،سینما ہاوس، ہوٹل کھیل کے میدان ، اور دوسرے تفریحی مقامات یہاں تک مسجد اور عید گاہ بند کروا دیئے گئے باجماعت نماز ادا کرنے پر پابندی لگادی گئی۔

ماسک کا پہنا لازم قرار دیا گیا۔ تمام معمولات زندگی کو گھر تک محدود کیا گیا اگر کوئی مزدور ریڈھی والا اپنے ریڑھی گھر سے باہر نکل کر کچھ بیچ کر بچوں کی ایک وقت کے روٹی کا بندو بست کرنا چاہتا تو اسکی ریڈھی ایس او پیز کے خلاف ورزی کی جرم میں پلٹا دے کر اسے ذلیل کرکے گھر واپس بھیج دیتے تھے۔

اگر کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی سوار کسی سودا سلف یا ادویات خریدنے یاکہ اپنے کوئی دوسری کام کے لئے گھر سے نکل جاتے تو وہ گھنٹوں تک روڈ پر مرغا بن کر واپس گھر آ جاتے تھے ۔

لیکن پاکستان میں اس وائرس کے تصدیق ہونے کے بعد سرجیکل ماسک بھی ناپید ہوگئے اگر کسی نہ کسی میدیکل اسٹور سے مل جاتے دس روپے والے سو روپے کے دام میں فروخت ہونے لگے۔

جب پاکستان میں کرونا سے متاثریں اور اموات کی تعداد میڈیا میں زیادہ بیان کرنے لگے تو عوام نے اس شک کا اظہار کیا کہ حکومت مغربی سازش میں آکر دوسرے بیماریوں سے متاثرہ لوگوں کو زہریلی انجیشن سے ختم کروا کر انہیں کرونا کے فہرست میں ڈال کر بیرونی ملک سے پیسہ بٹورنے کی چکر میں ہے۔

ایسی خیالات کی وجہ بہت سے لوگ اپنے مریضوں کو ہستالوں سے دور رکھنے لگے بعض معمولی بیمار ہسپتال نہیں پہنچائے کہ اسے زہریلی انجیکشن مار کر اسے قتل کرکے لاش بیرونی ملکوں میں بھیج کر پیسہ کماتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کو اب دوسال ہونے والا ہے دنیا کے بیشتر ممالک ایک دوسرے پر لگائے گئے الزام ، طنز ،تنازعہ، شاید بھول گئے ۔مختلف شک شبہ شاید اب یادوں میں باقی رہ گئے۔

دنیا کے تمام ممالک نے اسکی پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اپنے معاشی نقصان کو برداشت کرکےمجبوراََ لاک ڈاون کا سہارا لیا تھا چند مہنیے کے احتیاطی تدابیر سے کرونا کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسین نیشن ، فیس اسکین ، فیس ماسک اور کرونا سے بچانے اور پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جدید قسم کے ٹیکنالوجیکل مشین اور پروڈکٹ بنا کر دوسرے ملکوں میں فروخت کرکے اپنے چند مہینے کے مالی خسارے کو پورا کرکے مزید تجارت کر رہے ہیں۔

لیکن پاکستان میں کرونا کے مصنوعی وائرس ۔مغربی فریب اور سازشین کے شک شبہ ،تناؤ کم نہ ہوئے بلکہ اب بیرونی ملکوں سے آنے والے ویکسینیشن پر شک شبہ نئی نئی باتیں سنے کو ملتے ہیں ۔

اب ویکسین کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کے محبت کو ختم کر کے انہیں یہودیوں کی نظریہ کی طرح زندگی گزارنے کی طرف مائل کرنے کا ایک سازش ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ مسلمانوں کے عمر کی کم اور محدود کرنے کی مغربی ملکوں کے سازش ہے۔

کچھ کے خیال یہ مسلمان کے دماغ کو کمزور کرنے کی سازش ہے تاکہ وہ زیادہ کام نہ کریں ٹیکنالوجی استعمال نہ کرسکیں۔

کچھ سے یہ سننے کو ملتے ہیں یہ عمل تولید کو کم کرنے کی موجب بنتا ہے یہودی کی چال ہے مسلمان کی آبادی دنیا میں کم رہے وغیرہ وغیرہ

کرونا کی ویکسین لگانے کا عمل ایک طرف حکومتی اور صحت انتظامیہ کی طرف سست روی کا شکار ہے دوسری طرف عوام اس سے ڈر کر دور بھاگ رہے ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی سیاست دان ہر دو تین ہفتے کے بعد کرونا کا نئی لہر آنے کی خوشخبری دے کر لاک ڈاون نافد کر رہا ہے ۔اب تک پاکستان میں چار لہر گزر چکے ہیں پانچویں اور چھٹی لہر آنے کی پیشنگوئیاں ہورہی ہے ۔

میرا کہنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ کرونا مصنوعی وائرس ۔ مغربی سازش کا حصہ ہے یا نہیں لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے ہم کرونا کو کب تک پال کے رکھیں گے ۔ دنیا کے جس ملک میں پیدا ہوا اس ملک میں تین مہینے کے بعد ختم ہوا ۔ہمیں اب تک ایک لہر کے گزرجانے کے بعد دوسرے لہر کےکے آنے کا پیغام مل رہا ہوتا ہے۔

کرونا کی ویکسین نیشن کا عمل دیہات اپنی جگہ بڑے شہروں میں قابل عمل نہیں ہے بڑے بڑے ویکسین نیشن سینٹروں میں لوگ ایس اور پیز کے خیال کئے بغیر کھڑے ہوکر ویکسین لگوانے کے انتظار میں دس دس گھنٹے دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔چار پانچ گھنٹے بعد ویکسین ختم ہونے کا اعلان کرکے لوگوں کو گھر بھیج کر دوسرے دن بلا رہے ہیں۔

کھبی عوام خود احتجاج کر رہی ہوتی ہے لاک ڈاون نافذ کرکے تاکہ کرونا کا ایس او پیز کی پاسداری ہو کھبی ختم کروانے کا مطالبہ کرکے احتجاج کر رہے ہیں۔

اب تک اس ملک کے حکومت اور عوام کا کرونا کے بارے میں رویہ ایسا ہے کہ پاکستان پولیو کی طرح کرونا وائرس میں نا جیتنے والا غیر معمولئ عمل کے ساتھ صدیاں گذارے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں