وطن کا سر بُلند – اسد واھگ

302

وطن کا سر بُلند

تحریر: اسد واھگ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ گواہ ہے جب بھی بلوچ وطن پر سامراجی طاقتوں نے اپنے خونی پنجے گاڑھے ہیں تو وطن کے سپوتوں نے سر پر کفن باندھ کر خونی درندوں کا سروناش کیا ہے اس کیلئے انہوں ذاتی زندگی قربان کرکے مزاحمت جیسے پرکٹھن راہ کو اپنی زندگی کا اولین و آخری مقصد بنایا ہے۔

ایسے ہی تھے ہمارے سربلند جان جس نے اپنی ذات کو وطن پر ترجیح دی۔ گھر، گاؤں، بچپن حتٰی کہ تمام خوشیوں کو خیر باد کہہ کر دھرتی ماں کی خاطر موت کو دعوت دینا پسند کیا۔ وہ تمام باتیں جانتا تھا، شعور سے لیس نوجوان تھا۔ آج وہ ایک عظیم کردار بن کر ابھرا ہے۔

میرے پاس کوئی الفاظ نہیں کہ اس عظیم کردار پر قلم بند کروں، اس کردار کے آگے قلم اٹھانے سے پہلے میرے ہاتھوں پر کمزوری طاری ہوتی ہے کہ اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے دنیا کو حیران کر دیا، جس نے وطن کی آبرو کیلئے اپنی قیمتی جان کا نذرانہ دیا بھلا ایسے بہادر شخص کیلئے مجھ جیسے ادنیٰ جہدکار کے پاس الفاظ ہوں بھی تو اس کے فیصلے کے آگے ذرہ برابر بھی صفت نہیں کر پائیں گے۔

ایک ایماندار اور مخلص وطن کا سپاہی اس سے بڑھ کر اور کیا چاہتا ہے کہ اس کا خون مادرِ وطن کی دفاع میں بہے اور وہ دھرتی کی آغوش میں ابدی آرام فرمائے۔ بلوچ نوجوانوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ دشمن ان کے حوصلے کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ یہ نوجوانوں میں شعور کی انتہاء ہے تمام خواہشات قربان کرکے صرف مقصد کے حصول کیلئے تمام تر مشکلات کو بخوشی قبول کرکے قربانی کے عظیم فلسفے پر عمل پیرا ہو۔

جب وطن خون کا تقاضا کرتی ہے تو بہادر سپوت دوڑ پڑتے ہیں خود کو قربان کرنے اور آج سربلند جان نے پھر سے واضح کردیا کہ مجھ سے وطن نے لہو کا تقاضا کیا ہے اور میں آج اس کو اپنے لئے باعثِ فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں خوش نصیب ہوں یہ موقع مجھے ملا، جس راہ کو شہید مجید نے اپنایا، شہید درویش نے اس تسلسل کو جاری رکھا اور شہید ریحان جان نے اس کو ایک نیا رخ دیا، باقی ساتھیوں نے بھی اس تسلسل کو تیزی سے جاری رکھنے کا عزم دہرایا اور اس میں نئی روح پھونک دی۔

لمہ یاسمین اور شہید جنرل استاد اسلم نے اپنے لخت جگر کو رخصت کرکے جس بہادری کا مظاہرہ کیا آج انہی کی بدولت نوجوانوں میں حوصلے اور پختگی کی مضبوطی ابھری۔

گیارہ مئی دو ہزار انیس کو چار بلوچ فدائین طویل سفر طے کرکے گوادر میں کوہِ باتیل پر پرل کانٹینینٹل فائیو اسٹار ہوٹل پر حملہ کرتے ہیں جہاں بلوچ سرزمین کو لوٹنے والے چائنیز سرمایہ کار اور قبضہ گیر فوج موجود ہوتے ہیں۔ یہ چاروں فدائین دشمن کی حصار کو توڑ کر ہوٹل کے اندر جانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور دشمن فوج اور سرمایہ کاروں کو ڈھیر کرکے چوبیسوں گھنٹے ہوٹل پہ قبضہ جمائے رکھتے ہیں اور مقصد کے مطابق آخری گولی کا فلسفہ اپناتے ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کو تنظیم کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کے نام سے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے آپریشن “زر پہازگ” یعنی دریا کی حفاظت کا نام دیا جہاں دوسری طرف بلوچ قوم نے اپنے شہیدوں کے کئے گئے خوبصورت کارنامے کی بھر پور حمایت کی اور اسے ایک توانا کارنامہ تصور کیا جس نے تحریک کو جلا بخشی، جس نے نوجوانوں میں جذبوں و حوصلوں کی نئی روح پھونک دی۔

آج انہی زِر پہازگ کا راستہ اپنا کر سربلند عرف عمر جان نے بارود سے بھری جیکٹ پہن کر چائنیز انجینئرز اور قابض دشمن پر حملہ کرکے ان کے چیتھڑے اڑا دیئے، دریا کی حفاظت اور مادر وطن کی دفاع میں خود کو قربان کر دیا۔ مادر وطن کے ایسے بہادر سپوتوں کو روکنے کی ہمت کسی بھی سامراجی قوت کو حاصل نہیں۔ دشمن ان روشن چراغوں کو کبھی بجھا نہیں سکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔