کیا بلوچ یکجہتی کمیٹی علاقائی ہے؟
تحریر:ذالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
درج بالا سوال گزشتہ چند مہینوں سے مشرقی بلوچستان کے مختلف سیاسی و سماجی حلقے اٹھا رہے ہیں ـ “بلوچ یکجہتی کمیٹی” سانحہِ ڈنُّک کے بعد “برمش یکجہتی کمیٹی” کی صورت سامنے آئی ـ اس کے بینر تلے بلوچستان بھر میں عوامی مظاہرے منظم کئے گئے (تونسہ اور ڈیرہ غازی خان کو بلوچستان ہی سمجھا جائے) ـ ان مظاہروں میں بعد ازاں کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں مقیم بلوچ بھی شامل ہوتے گئے۔ ـ
گزشتہ سال تربت میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے بعد دوبارہ احتجاج کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوا ـ اس دفعہ “برمش” کی جگہ “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کا نام استعمال کیا گیا ـ گوادر کے گرد باڑ لگانے کا پاکستانی منصوبہ ہو یا کینیڈا میں بانک کریمہ بلوچ کا قتل ، بانک کی تدفین میں عوام کو روکنے کی غلیظ کوششیں ہوں یا مکران میں بجلی پانی کا مسئلہ؛ ہر مسئلے کے گرد منظم ہونے والی تحریکات میں “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کا نام سامنے آیا۔ ـ
“بلوچ یکجہتی کمیٹی” کوئی منظم تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی متفقہ قائد ہے ـ ہر خطے کے باشعور مرد و خواتین نے اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اسی نام کو چُنا جس سے یکجہتی اور اتحاد کا تاثر پیدا ہوا۔ ـ
بلوچستان میں پاکستان کی جبری گمشدگی پر مبنی “مارو اور پھینک دو” پالیسی کی وجہ سے مزاحمتی سیاست ایک عرصے سے ختم ہوچکی تھی ـ سانحہ ڈنُّک نے ٹہرے ہوئے پانی میں کنکر کا کام کیا، ارتعاش پیدا ہوا اور پھر لہریں بنتی گئیں۔
برمش اور حیات بلوچ کا تعلق خطہِ مکران سے تھا ـ سو مزاحمتی سیاسی تحریک کا آغاز بھی وہاں سے ہوا ـ مسلسل سیاسی عمل اور بعض اقتصادی عوامل کی وجہ سے مکران ایک مربوط سماج بن چکا ہے ـ اس مربوط سماج میں شہری مڈل کلاس ایک اہم کردار ہے ـ مکران محض گوادر، تربت اور پنجگور پر مشتمل کسی مخصوص جغرافیائی خطے کا نام نہیں ہے ـ کراچی، عرب ممالک اور یورپ میں مقیم شہری مڈل کلاس بلوچوں کی اکثریت کا تعلق بھی مکران سے ہے ـ اس کے ساتھ ساتھ مغربی بلوچستان (ایران) کا خطہ مکران بھی پاکستان کے زیرِانتظام مکران سے مکمل طور پر منسلک ہے ـ بلوچی ادب کا مرکز بھی مکران (کراچی بھی) ہے ـ ان عوامل کی وجہ سے مکران سیاسی لحاظ سے مربوط اور فعال ہے۔
برمش اور حیات بلوچ سانحات کے بعد دو مزید ایسے معاملات سامنے آئے جس نے بلوچستان کو بالعموم اور مکران کے سماج کو بالخصوص ہلا کر رکھ دیا ـ ان میں سے ایک گوادر کے گرد باڑ لگانے کا پاکستانی منصوبہ تھا جس نے بلوچ ساحل کو خطرے سے دوچار کردیا ـ دوسرا بلوچ قومی تحریک کی سرکردہ رہنما بانک کریمہ بلوچ کا بہیمانہ قتل اور پھر ان کی تدفین میں پاکستانی رکاوٹیں ـ ان سانحات و واقعات کے باعث مکران میں “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کی فعالیت میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا پر سرگرم مکرانی بلوچوں (کراچی، خلیج اور یورپ بھی شامل) نے ان ایشوز کو قومی مسئلہ بنا کر پیش کردیا۔
درج بالا عوامل کی وجہ سے مکران میں “بلوچ یکجہتی کمیٹی” ایک مضبوط پلیٹ فارم بن کر سامنے آئی ـ گوادر میں ماہی گیروں کے مسائل ہوں یا مکران میں پانی بجلی کی کمیابی؛ ہر مسئلے کو سامنے لانے کے لئے “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کا پلیٹ فارم استعمال ہوا ـ کمیٹی کے نام اور سوشل میڈیا پر سرگرم مکرانی بلوچوں کی مربوط فعالیت کی وجہ سے مکران کا ہر مسئلہ بلوچ قومی مسئلے کی صورت سامنے آیا ـ شدید مکرانی پروپیگنڈے کی وجہ سے جھلاوان، سراوان، گرین بیلٹ اور کوہ سلیمان کے بلوچ بھی متاثر ہوئے اور انہوں نے مکران کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھ کر احتجاج کو مزید وسعت دی ـ نتیجہ یہ نکلا عالمی میڈیا (پاکستانی میڈیا کے مطابق بلوچستان وجود نہیں رکھتا) نے بھی مکران کے مسائل پر بھرپور توجہ دی۔
جہاں یہ سب ہورہا تھا وہاں داخلی سطح پر ایک تضاد بھی سامنے آنے لگا ـ کوہ سلیمان میں بے روزگاری بالخصوص ڈیرہ بگٹی گیس فیلڈ کے برطرف ملازمین کا “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے نام سے احتجاج کوہ سلیمان کے چند علاقوں تک محدود رہا ـ کوہ سلیمان کے بعض سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے مکران پر شدید تنقید کرکے انہیں علاقائی تعصب کا مرتکب قرار دیا ـ اسی طرح جھلاوان اور سراوان کے عوامی مسائل بھی بلوچ مین اسٹریم میں جگہ نہ پاسکے ـ جھلاوان سے مکران کو “خود ساختہ بڑا بھائی” بننے کا طعنہ بھی سننے کو ملا ـ “خود ساختہ بڑا بھائی” بلوچستان میں عام طور پر پنجاب کو کہا جاتا ہے ـ اسی طرح گرین بیلٹ میں دریائی پانی کی کمیابی بھی ایک اہم ایشو ہے لیکن وہ بھی تاحال قومی مسئلے کا درجہ حاصل نہیں کرپایا ہے۔
اب گرین بیلٹ کے محنت کش نوجوان محراب پندرانی کے قتل کی خبر سامنے آرہی ہے ـ اس یتیم محنت کش نوجوان کو ریاستی آشیرباد سے پھلنے پھولنے والے ایک مقامی بلوچ سرمایہ دار نے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا اور پھر اس قتل کو خودکشی کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی ـ گرین بیلٹ کے تقریباً تمام قصبوں و شہروں میں اس ظلم کے خلاف “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے پلیٹ فارم سے احتجاج کیا جارہا ہے ـ سوشل میڈیا پر بھی گرین بیلٹ سے تعلق رکھنے والے بلوچ ہی اس حوالے سے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ـ اس مسئلے سے جھلاوان، سراوان اور کوہ سلیمان بھی لاتعلق ہیں لیکن گرین بیلٹ کے سیاسی و سماجی حلقوں کی تنقید کا ہدف صرف مکران ہے ـ وجہ یہی ہے کہ مربوط اور طاقت ور سیاسی سماج ہونے کی وجہ سے مکران (کراچی، خلیج ، ایران اور یورپ بھی شامل) کی شمولیت و عدم شمولیت اہم ہے۔ ـ
اب مسئلہ یہ ہے کہ رابطوں کے فقدان کی وجہ سے مکران کے اکثر سیاسی حلقے گرین بیلٹ کے سماج اور اس کی سیاسی صورتحال سے واقف ہی نہیں ہیں ـ گرین بیلٹ کا بلوچ مزاحمتی سیاست سے رشتہ بھی ہمیشہ کمزور رہا ہے ـ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حیات بلوچ اور بانک کریمہ بلوچ قتل کا ردعمل جب گرین بیلٹ سے آیا تو متعدد بلوچوں کو خوش گوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا ـ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ابھی بھی مکران سمیت بلوچستان کے دیگر خطوں کے باشندوں کو علم ہی نہ ہوگا مھراب بلوچ نامی محنت کش کی لاش انصاف کی طلب گار ہے۔ ـ
یہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں مزاحمتی سیاست کو شجرِ ممنوعہ بنانے، بلوچ مزاحمتی سیاسی تنظیموں کی فاش غلطیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو ایک رابطہ کمیٹی نہ بنانے کا نتیجہ ہے ـ تعصب کی پھبتی کسنے، طعنے دینے اور شکایتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھنے سے اس مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ ـ
بہتر ہوگا بلوچستان بھر کے سیاسی حلقے اپنے رابطوں کو مضبوط بنائیں ـ مکران کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہے وہ بلوچ گلزمین کا ہی حصہ ہے ـ اسے طعنوں کی مار سے زخمی کرنے کی بجائے اس کی شہری قوت کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے ـ بلوچستان ہم سب کا وطن ہے اور وطن کے کسی بھی گوشے میں ہونے والی ناانصافی اور زیادتی ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے ـ غلط فہمیوں کو ہوا نہ دی جائے ـ ریاست ہو یا اس کے لے پالک سردار و سرمایہ دار ہمیں سب کے خلاف یکجا ہوکر لڑنا ہوگا ـ یہ لڑائی “بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے پلیٹ فارم سے ہی ہونی چاہیے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں