شہید فراز جان اور شہید سلمان جان سے وابستہ کچھہ یادیں۔  میرجان میرو

433

شہید فراز جان اور شہید سلمان جان سے وابستہ کچھہ یادیں

تحریر:میرجان میرو

دی بلوچستان پوسٹ

27 مارچ 1948کو پاکستان نے بلوچستان پر جبراً قبضہ کیا اور بلوچوں کو اپنا غلام بنایا، اسکے بعد بلوچی زبان کو ختم کر کے اردو زبان کو قومی زبان قرار دے دیا گیا۔ بلوچوں کے ساحل اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کر کے پنجاب کو آباد کیا گیا۔ سوئی سے نکلنی والی گیس کو پنجاب کے کونے کونے میں پہنچایا گیا لیکن سوئی کے لوگ ابھی بھی لکڑی سے آگ جلانے پر مجبور ہیں۔بلوچوں کی معدنیات سونا، چاندی گیس، تیل،کرومائیٹ، کوئلہ، بہت قسم کے معدنیات کو پاکستان چائنہ کے ساتھ ملکر لوٹ رہا ہے اور بلوچستان کےتعلیمی نظام کو تباہ اور برباد کیا ہوا ہے آئے روز چادر اور چار دیواری کو پامال کر کے عورتوں اور بچوں پر تشدد کر کے لوگوں کو لاپتہ کرنے اور بعد میں ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھنکا گیا۔ ابھی بھی کوئٹہ کے سڑکوں پر ہماری مائیں، بہنیں اپنے پیاروں کی تصویریں لئے احتجاج پر بیٹھی ہوئی ہیں لیکن اس فوج نے بنگلہ دیش میں ہزاروں ماوں اور بہنوں کی عزت کو پامال کر کے وحشیوں جیسا سلوک کیا اور کئی بنگالیوں کو شہید کیا۔
‌ بلوچستان میں بھی آئے روز ایسے ہی ظلم ہورہے ہیں۔

شہید فراز اور سلمان نے یہ مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی زندگی کے سارے خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھایا اور غلامی کی زندگی کو خیر باد کہہ کر آزادی کی جنگ میں شامل ہوئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا دشمن صرف بندوق کی زبان سمجھتا ہے تو اس لئے وہ بندوق اٹھا کر گوریلہ جنگ میں شامل ہوئے ۔

آج میں دو عظیم سرمچاروں کی داستان لکھ رہا ہوں، انہوں نے بہادری کی نئی تاریخ رقم کی۔ دو خاموش سپاہیوں کی داستان جو آخری گولی تک لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ وہ اپنے آخری معرکے میں 8 گھنٹوں تک دو بہ دو لڑتے رہے اور دشمن کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ تاریخ ہمیشہ گواہی دے گی کہ بلوچ قوم میں ایسے بھی بہادر سپاہی پیدا ہوئے۔ شہید فراز شہید سلمان جیسے لوگوں کی قربانیوں کی بدولت آج ہر بلوچ کو اپنی غلامی کا احساس ہوا ہے اور آج وہ غلامی کے خلاف آواز اٹھا  رہے ہیں۔

فراز جان ایک خاموش سپاہی تھا وہ باتیں بہت ہی کم کیا کرتے تھے وہ ہر وقت صرف ہنستے رہتے، اکثر مزاقً “نا نا” کا لفظ استعمال کرتے تھے۔

جب میری پہلی دفعہ شہید فراز جان سے ملاقات ہوئی تو انتہائی خاموش معلوم ہوئے میں پریشاں تھا کہ یہ دوست باتیں کیوں نہیں کررہا ۔شہید فراز شکار  اور جنگ کے بہت شوقین تھے اور ہر وقت جنگ کیلئے تیار رہتے اپنی بندوق اور دوربین اپنے پاس رکھتے تھے ۔مجھے شہید فراز سے جنگی حکمت عملیوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ وہ جنگی حربوں کے ماہر تھے ان کو گوریلہ زندگی کے بارے میں بہت معلومات حاصل تھیں۔  ایک دفعہ جب وہ گشت سے واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکا تھا جس کو شہید نےسلمان کے نام سے مخاطب کیا۔ جب جب میں سلمان کو دیکھتا تو اس کا چہرہ فراز سے ملتا جلتا معلوم ہوتا۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ دونوں بھائی ہونگے کیونکہ شہید سلمان بھی اکثر فراز کی طرح خاموش ہی رہتا۔ وہ اکثر فراز کو فالو کرتا۔ جب میں نے سلمان سے پوچھا کہ آپ کو پہاڑوں والی زندگی پسند ہے؟ وہ ہنستے ہوئے بولے میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں ایک گوریلہ کی زندگی گزاروں،  ایک سرمچار بنوں، اپنے وطن کیلئے قربانی دوں، بلوچ قوم کا ایک سپاہی بنوں، آج میری یہ خواہش پوری ہوئی ہے آج میں ایک گوریلہ ہوں یہ پہاڑ میرا گھر ہیں یہ پہاڑ مجھے بہت عزیز ہیں آج میں بلوچ قوم کا ایک سپاہی ہوں ایک سرمچار ہوں۔

میں سوچنے لگا کہ اگر ہر نوجوان کی سوچ شہید سلمان جیسا ہو تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہم کو غلام نہیں کر سکتی کیونکہ ہر قوم کا مستقبل اس کا نوجوان ہوتے ہیں لیکن ہمارے نوجوان ابھی بھی چین کی نیند سو رہے ہیں یا منشیات جیسے برے کاموں میں مصروف ہیں ایسے نوجوان اپنے قوم کیلئے ایک دھبا ہیں۔

ایک دفعہ میں دیگر چند دوستوں کے ساتھ ایک گشت پر گیا، جب ہم اپنے گشت کو ختم کر کے  واپس اپنے کیمپ آئے تو فراز جان اور سلمان جان کیمپ میں نہیں تھے دوستوں نے بتایا کہ فراز جان تنظیمی گشت پرگیا ہوا ہے اور اس بار وہ سلمان کو اپنے ساتھ لےگئے ہیں۔ شہید فراز اکثر تنظیمی گشت پر ہوتے تھے وہ تنظیم کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ اس بیچ کہ جب فراز اور سلمان تنظیمی سفر پر تھے ہمیں واپس ایک تنظیمی گشت پر جانا پڑ گیا۔ کچھ دنوں کے بعد جب واپس کیمپ میں آئےتو دوستوں کےساتھ بلوچی حال احوال ہوا بلوچی حال میں دوست نے بتایا کہ سنگت فراز دوران گشت شہید ہوئے ہیں۔ جب دوشمن نے چاروں  طرف گھیرنے کی کوشش کی تو دوستوں نے مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کی، میں حیراں رہ گیا کیونکہ فراز پہلے بھی کئی دفعہ ایسےگھیرے کو توڑ کر دشمن کے آنکھوں کے سامنے سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔ بعد مین دوست نے بتایا کہ دوران مقابلہ شہید فراز اور سلمان نے 8 گھنٹوں تک خون ریز جنگ جاری رکھی۔ جب دشمن نے پہلی دفعہ دوستوں کو گھیرنے کی کی کوشش کی تو دوستوں نے بہادری سے مقابلہ کیا اور دشمن کے کئی بندوں کو مار کر نکلنے میں کامیاب ہوئے اس کے بعد دشمن نےواپس گھیرا تنگ کر لیا اور چاروں اطراف سے سلمان اور فراز کو گھیر لیا، دوستوں کے پاس نکلنے کا راستہ نہ بچا کیونکہ جھڑپ کی جگہ کا علاقہ میدانی تھا، قریب میں کوئی پہاڑ نہیں تھے۔

کور کیلئے قریب ہی ایک پرانے اور کچے مکان کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا سو وہ گھر میں داخل ہوئے اور گھر کو اپنا مورچہ بنایا۔ دشمن کو ناکامی ہوئی تو اس نے مزید فوجی دستے  اور ہیلی کاپٹر منگوائے دوستوں کو چاروں طرف گھیرے میں لیا تو  دوستوں نے دو بہ دو لڑتے ہوئے اپنے آخری گولی تک دشمن کے کئی اہلکاروں کو مار کر خود بھی شہید ہوئے۔

دوران جنگ   شہید فراز نے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے  کہا کہ یہ میرا آخری دن ہے میں کوشش کرونگا کہ جنگ کو رات تک لے جا سکوں۔ اس نے کہا خود کو دو گولی ماروں گا لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکوں گا۔ وہ دشمن سے آمنے سامنے لڑتا رہا   ۔شہید سلمان بھی آپ کی طرح دشمن کے سامنے پہاڑ کی مانند کھڑے تھے حالانکہ شہید سلمان پہلی مرتبہ ایسے گھیرے میں تھے لیکن آپ نے ایسی تربیت کی تھی کہ وہ آخری دم تک لڑتے رہے۔ دوران جنگ آپ نے نوجوانوں اور اپنے فیملی والوں کو اپنا آخری پیغام دیا۔ شہید فراز نے اپنے آخری پیغام کے بعد دوستوں سے کہا کہ دشمن بہت قریب ہے میں اپنے اور سلمان کے موبائل فون جلا رہا ہوں تاکہ دوستوں کے راز محفوظ رہیں کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ ہم تو شہید ہونگے لیکن تنظیمی راز دشمن کے ہاتھ نہ لگیں  اور کہا کہ سب دوستوں سے کِہنا کہ اپنے حق بخش دیں اس وقت ہیلی کاپٹر بہت شیلنگ کررہے تھے اور فوج کے مزید تازہ رستہ منگوائے گئے اور آخر آپ لوگ بہادری کے ساتھ دشمن کے سامنے لڑتے ہوئے کئی کئی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوئے۔

بعد مین دشمن نے شہیدوں کے لاشوں کو ایک فٹ کھود کر بغیر کفن ان میں دفنایا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جب بھی دشمن کو بلوچ سرمچاروں کے ہاتھ شکست ہوئی تو وہ اپنا زہر کبھی عام عوام کو گرفتار کر کے، ان پر تشدد کرتے ہوئے یا بازاروں پر بمباری کرتے ہوئے اگلتا ہے، گھروں میں آپریشن کے بہانے پر چوری کرتے ہیں یا شہیدوں کے لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہیں، کھبی لاشوں کو جلاتے ہیں یا  لاپتہ بلوچوں کو شہید کر کے لاشیں پھینکتے ہیں اور جعلی مقابلے کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا دشمن ایک ڈرپوک ہے وہ شہیدوں کی لاشوں تک سے ڈرتے ہیں اس کی مثال کوئٹہ کے شہدا قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کرنا ہے۔

دنیا میں ایسے بہت سے کامریڑوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہیں عوام اپنا آئیڈل مانتے ہیں اور انقلابی لوگ انہیں فالو کرتے ہیں  بھگت سنگھ ،فیڈل کاسترو، کامریڈ ماوزے تنگ ،نیلسن منڈیلا کی بہادری کی داستانیں بہت مشہور ہیں ان لوگوں کی وجہ سے آج ہندوستان۔کیوبا۔چین۔جنوبی افریقہ  آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر موجود ہیں بلوچستان میں بھی ایسے ہزاروں کامریڈوں کی بہادری کے مثالیں موجود ہیں۔

شہید کامریڑ فراز جان اور سلمان جان بھی بلوچ نوجوانوں کے آئیڈل ہیں وہ ابھی بھی زندہ ہیں کیونکہ شہید کبھی بھی نہیں مرتے ہیں وہ ہر وقت زندہ ہوتے ہیں ان کی سوچ فکر ہمارے دلوں میں ہیں، ان کا فلسفہ ابھی بھی زندہ ہے شہید سلمان آپ کی فکر نوجوانوں کیلے ایک سبق ہے شاید دشمن نے آپ لوگوں کو جسمانی لحاظ سے ہم سے جدا کیا ہے لیکن آپ لوگوں کا فکر ابھی بھی زندہ ہے کیونکہ آپ لوگ اپنے قوم کے ہیرو ہیں۔

شہید فراز آپ کے  جنگی تربیت شور پارود کے پہاڑوں میں ہوا۔ شور بلوچستان کہ قلات ۔خاران۔نوشکی کے مشہور پہاڑوں کا نام ہے جب بلوچستان کےآزادی کی جنگ شروع ہوئی تو شور میں بہت سے بہادروں کی شہادتیں ہوئیں اور یہاں ہمارے بزرگوں سے لے کر نوجوانوں نے بہت سی قربانیاں دیں۔ یہاں بزرگ شہید ماما نجیب، ماما شمس، شہید استاد ٹکری، شہید بارگ، شہید میرل، شہید اہلمنٹ، شہید نسیم، شہیدخدل، شہید ڈاکٹر شعیب، شہید شہزاد، شہید علی،شہید بلال، شہید شہداد، شہید احسان، شہید جاوید، شہید جنید اور بہت سے شہیدوں کی بہادری کے داستانیں ہیں۔

آپ دونوں نے یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ کبھی اپنی غلامی کو قبول نہیںں کریں گیں ۔وہ اپنے مادر وطن کے لئی اپنے جانوں کی قربانی دیتے رہینگے اور غلامی کے خلاف اپنی آخری گولی تک لڑتے رہنگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں