جنگ صرف دشمن سے ہوگی
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اتحاد کے داعی سنگت ثناء بلوچ آج سے ٹھیک 13 سال قبل مستونگ سے لاپتہ ہوئے تھے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاش تربت سے برآمد ہوئی تھی، اس دن یہ صرف لاش نہیں تھی بلکہ بلوچ اتحاد کی لاش تھی۔ آپ حیران رہ جائیں گے یہ سن کر کہ بلوچوں کو یکجا کرنے کے لئے سنگت ثناء نے مکران سے لے کر ڈیرہ غازی خان اور ملتان تک بلوچ نوجوانوں کو یکجا کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً دورے کیے۔
بقول بلوچ لکھاری عابد کے بی ایس او کی عہدے داری بھی حالانکہ کسی پارلیمانی نشست کے نشے سے کم نہیں، اس لیے جو ایک بار اس لت میں پڑ جائے پھر مشکل سے ہی اس کا دامن چھوڑنے پر تیار ہوتا ہے۔ بہرحال سنگت ثناہ کا کام کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب شاید کوئی ہی دے پائے۔ کیوں کہ اس نے ایک کام کو فوقیت نہیں دی اس نے زمان و مکان کے اندر ہر اس کام کو اہمیت دی جو کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ اب چونکہ جس دن سنگت ثناء کو لاپتہ کیا گیا تھا تو میں اس وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا اس لیئے میں نے اس کے سیاسی دور تو نہیں دیکھا تھا لیکن خلیل جبران نے اپنی محبوبہ کو بیس برس نہیں دیکھا تھا تو کیا جس کو نہیں دیکھیں اس سے عشق نہیں ہوتا۔
بہر حال کہنے کا مقصد بلوچ اتحاد کا یہ داعی ایک ایسی شخصیت کا مالک تھا اس کے دور میں بی ایس او کے کسی بھی دھڑے کا پروگرام ہوتا تو کارکنوں کی شرکت پر کوئی پابندی نہ تھی آج کے بلوچ طلباء تنظیموں سے جڑے ہوئے کارکنوں کے لئے یہ ایک انتہائی حیران کن بات ہوگی کہ بی ایس او کے ایک دھڑے کا پروگرام ہے، تو دوسرے دھڑے کے نوجوان کرسیاں لگا رہے ہیں، دوسرے دھڑے کا پروگرام ہے تو تیسرے دھڑے کا کارکن پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ ایک ایسا رہنما جہاں شعراء کو عزت دی، تو وہیں گائیکوں کو احترام بخشا۔
سوچتا ہوں میری اوقات کیا کہ میں سنگت ثناء جیسے متحرک شخص اور عملی انسان کے بارے میں لکھوں یا اس کی صفت خوانی کروں کیا سنگت ثناء کے میرے قلم کے نوک کے چند بے ربط کلمات کا محتاج ہے یا میں نہ لکھوں پھر تاریخ عالم سنگت کا کردار نا مکمل ہوجاٸے گا؟
نہیں نہیں اس متحرک نوجوان کے اس عملی نظریاتی، علمی اور سیاسی پختگی کام کے اوپر جس نے پورے بلوچ انٹلیجنشیا سمیت پارلیمانی اور غیر پارلیمانی ہر اس کارکن کو حیران کردیا اور ہر ایک نے یہ میچور کام دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
آئیں اس تاریخی کہانی کو بیان کرتے ہیں جس نے سنگت ثناء کو بلوچ قوم کا رول ماڈل بنایا جب بی ایس او کے کونسل سیشن میں سنگت ثناہ کا پینل ہار جاتا ہے تو مختلف لوگوں کا خیال کہ سنگت ثناء مایوس ہوکر کسی اور دھڑے کی طرف جائے گا یا پھر دوستوں کے اوپر الزام لگا کر مختلف پروپیگنڈے کا سہارا لے کر انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گا۔لیکن کسی کو یہ خیال نہیں تھا لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے میرے کہ اس وقت کے بی ایس او کی قیادت کس قدر بالغ ہوچکی تھی کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کر ڈالی جہاں اس نے اپنا ہار تسلیم کیا اور نئی کابینہ کے دوستوں کو مبارک باد بھی پیش کردی، اس عملی کام کو دیکھ کر سرداروں، میر، وڈیروں اور جاگیرداروں کو بہت دھچکا لگا اور دشمن کو بہت نقصان ہوا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج سب طلباء تنظیموں سمیت وکلاء، اساتذہ اور دانشور ایک ہوکر کے بلوچستان میں جاری جبر اور بربریت کیخلاف مشترکہ طور پر حامی بھرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ہم تب اس قومی تحریک کے ساتھ انصاف کررہے ہوں گے جب موقع پرستانہ سیاست سے دست بردار ہوتے ہوئے اور دانشورانہ غفلت سے باز آجائیں۔ ورنہ دیگر صورت ہر ایک اپنی مسجد والا سوچ ہی اصل معنوں میں رد انقلابی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں